’’جمہور کا مذہب ہے کہ قبر اتنی اونچائی ہو گی، جو اسے کوہان نما بنا دے، جو اس سے زائد ہو اسے گرا دیا جائے گا۔ اتنی قبر باقی رکھی جائے گی کہ اس کی پہچان رہے اور اس کا احترام رہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں (سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ) کی قبروں کا یہی حال ہے۔‘‘ (تفسیر القرطبي : 10/380) احمد یارخان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’قرآن کریم نے ان لوگوں کی دوباتوں کا ذکرفرمایا۔ایک تواصحاب ِکہف کے گرد قبہ اور مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا، دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی بات کا ذکر نہ فرمایا، جس سے معلوم ہوا کہ دونوں فعل جب بھی جائز تھے اور اب بھی جائز ہیں ۔‘‘ (جاء الحق : 1/284) ’’اصحاب کہف کے گرد قبہ اورمقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا‘‘ یہ قرآنِ کریم کی کس آیت کا مفہوم ومعنی ہے؟ ہم نے آیت کریمہ کی تفسیر میں مسجدکا مفہوم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے باسند صحیح بیان کردیا ہے، اس آیت سے قبوں اور گنبدوں کا جواز نکالنا ان کا شیوہ نہیں ، جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بشارت ملی ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : لَمَّا اشْتَکَی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَتْ بَعْضُ نِسَائِہٖ کَنِیسَۃً رَأَیْنَہَا بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ یُقَالُ لَہَا : مَارِیَۃُ، وَکَانَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ، وَأُمّ حَبِیبَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَۃِ، فَذَکَرَتَا مِنْ |