اس مضمون کی ایک اور روایت بھی ہے۔ (المَعرِفۃ والتّاریخ للفَسوي : 3/309، التّاریخ الصّغیر للبخاري : 1/56، وفي نسخۃ : 1/81، السّنن الکبرٰی للبیہقي : 7/20، تاریخ ابن عساکر : 19/159) اس کی سند ’’ضعیف‘‘ بھی ہے۔ 1.محمد بن عبد الرحمن محاربی ’’مدلس‘‘ ہے، سماع کی تصریح نہیں ملی۔ 2.عبیدہ بن عمرو نے اس واقعہ کا زمانہ ہی نہیں پایا، لہٰذا سند منقطع ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِیْنِيُّ فِي الْعِلَلِ : ہٰذَا مُنْقَطِعٌ، لأَِنَّ عُبَیْدَۃَ لَمْ یُدْرِکِ الْقِصَّۃَ، وَلَا رَوٰی عَنْ عُمَرَ أَنَّہٗ سَمِعَہٗ مِنْہُ ۔ ’’امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت منقطع ہے، کیونکہ عبیدہ نے اس قصہ کا زمانہ نہیں پایا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ مروی ہے کہ عبیدہ نے یہ واقعہ آپ سے سن لیا ہو۔‘‘ (الإصابۃ في تمییز الصّحابۃ : 1/254) چنانچہ اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ’’صحیح‘‘ کہنا(الإصابۃ : 1/245) درست نہ ہوا۔ سو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مؤلفۃ القلوب کو مصارف زکوٰۃ سے خارج کرنا بھی ثابت نہ ہوا۔ اسی طرح نعیمی صاحب کا اصول کہ کچھ دینی امور ایسے بھی ہیں ، جو صحابہ کرام کے دور میں ممنوع تھے، لیکن بعد میں جائز قرار پائے، بھی غیر ثابت رہا۔ وللہ الحمد! دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال کو بدعات کی آمیزش سے بچائے اورہمیں اپنی رضا کے لیے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین ! |