’’اس کی سماعات صحیح ہیں ، مگر مجہولین اور گوشہ نشینوں میں سے جو ہاتھ چڑھتا، اس سے بیان کر دیتا تھا،حافظ ابو عبداللہ بن مندہ اصبہانی رحمہ اللہ اسے برا سمجھتے تھے، کہتے کہ یہ فضیلت میں جان بوجھ کر جھوٹ بولتا تھا۔‘‘ (تاریخ بغداد : 11/383) حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : رَوٰی حَدِیْثًا مَا لَہٗ أَصْلٌ ۔ ’’اس نے ایک بے سند روایت بیان کی ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال : 2/508) 3.فضل بن عباس یا ’’عیاش ‘‘ کوفی کون ہے؟ 4.حفص بن غیاث ’’مدلس‘‘ ہیں ۔ 5.اس میں قبر پر اذان کا ذکر تک نہیں ہے ۔ دلیل نمبر3 سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَا رَأَیْتُمُ الْحَرِیقَ فَکَبِّرُوا؛ فَإِنَّ التَّکْبِیرَ یُطْفِئُہٗ ۔ ’’آگ دیکھیں تو تکبیر کہیں ، کیونکہ اللہ اکبر اسے بجھا دیتا ہے۔‘‘ (عمل الیوم واللّیلۃ لابن السنّي : 298-295، الدّعاء للطّبراني : 1266) 1.من گھڑت ہے، قاسم بن عبداللہ بن عمر ’’متروک‘‘ ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے جھوٹا کہا ہے ۔ (تقریب التّہذیب لابن حجر : 5468) |