نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحہ : 5)’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں ۔‘‘نیز فرمایا : ﴿فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللّٰہِ أَحَدًا﴾ (الجن : 18) ’’اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔‘‘اس آیت میں دعا سے مراد عبادت نہیں ،جیسا کہ (عام)مفسرین نے کہا ہے،بلکہ مراد استعانت ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ﴾ (الانعام : 41) ’’تم سخت مصیبت کے وقت اسی اللہ کو پکارتے ہو،چنانچہ وہ تمہاری مصیبتیں دُور فرماتا ہے۔‘‘ (حجّۃ اللّٰہ البالغۃ : 1/185) علامہ آلوسی رحمہ اللہ (1270ھ)کہتے ہیں : ’’فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا﴾(الحج : 73)’’ اللہ کے علاوہ جنہیں بھی تم پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں ان کی مذمت کی گئی ہے، جو اولیا کے بارے میں غلو کا شکار ہو گئے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر مصیبت میں اولیا سے مدد طلب کرتے ہیں اور ان کے نام پر نذرونیاز دیتے ہیں ۔ بعض ’’دانشور‘‘ توکہتے ہیں کہ اولیا کرام اللہ کی طرف وسیلہ ہیں ، نذر ونیاز ہم اللہ کے لیے دیتے ہیں ، البتہ اس کا ثواب اس ولی کو پہنچاتے ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کا پہلا دعوی بت پرستوں جیسا ہے، جو کہتے تھے کہ ہم بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ |