کتنا برا فیصلہ کرتے ہیں ۔‘‘ نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ : 173) ’’اوروہ چیز(بھی حرام ہے) جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔‘‘ مزاروں اور آستانوں پہ نذر کے نام پر جاہلانہ رسومات اور نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل جس انداز میں ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ۔اس کے باوجود بعض حلقوں سے قبروں پر نذرو نیاز کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ جناب احمد یار خان نعیمی صاحب (1391ھ) لکھتے ہیں : ’’اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے، یہ نذر شرعی نہیں ، نذر لغوی ہے، جس کے معنی ہیں نذرانہ، جیسے کہ میں اپنے استاذ سے کہوں کہ یہ آپ کی نذر ہے، یہ بالکل جائز ہے اور فقہا اس کو حرام کہتے ہیں ، جو کہ اولیا کے نام کی نذر شرعی مانی جائے۔ اس لیے فرماتے ہیں تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ۔ نذر شرعی عبادت ہے، وہ غیر اللہ کے لیے ماننا یقینا کفر ہے۔‘‘ (جاء الحق : 1/307) نذر کی شرعی و لغوی تقسیم کسی اہل سنت امام نے نہیں کی، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی بزرگ ہستی مخلوق میں موجود ہے؟ اور کیا صحابہ کرام رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں رکھتے تھے،جتنی بعد کے لوگوں کو اپنے بعد والے بزرگوں سے ہے؟ کیا کبھی کسی قبرپرست نے غور کیا کہ اگر غیر اللہ اور فوت شدگان کے نام پر نذر ونیاز جائز ہوتی، تو صحابہ کرام اس کار ِخیر سے کبھی محروم نہ رہتے۔ کوئی شخص صحابہ کرام میں کسی سے بھی ایسا |