لَا یَرْفَعُ صَوْتَہٗ بِالْقِرَائَ ۃِ وَلَا بِالذِّکْرِ وَلَا یَغْتَرُّ بِکَثْرَۃِ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ وَأَمَّا مَا یَفْعَلُہُ الْجُہَّالُ فِي الْقِرَائَ ۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ مِنْ رَفْعِ الصَّوْتِ وَالتَّمْطِیْطِ فِیہِ، فَلَا یَجُوْزُ بِالْإِجْمَاعِ وَلَا یَسَعُ أَحَدًا یَقْدِرُ عَلٰی إِنْکَارِہٖ أَنْ یَّسْکُتَ عَنْہُ وَلَا یُنْکِرُ عَلَیْہِ … وَنَحْوِ ذٰلِکَ کَالْـأَذْکَارِ الْمُتَعَارَفَۃِ قَوْلُہٗ : بِدْعَۃٌ أَيْ قَبِیْحَۃٌ ۔ ’’جنازہ کے ساتھ قراء ت اور ذکر کے وقت آواز بلند نہ کریں ، جو لوگ بلند آواز سے ذکر کرتے ہیں ، ان کی کثرت دیکھ کر دھوکے میں نہ آجائیں ، جنازہ کے ساتھ جاہل لوگ اونچی آواز سے اور کھینچ کھینچ کر قراء ت کرتے ہیں ، یہ بالاجماع جائز نہیں ، کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ اس کے انکار پر قدرت و طاقت رکھتا ہو، پھربھی خاموش رہے اور اس پر انکار نہ کرے، لوگوں پر خاموشی لازم ہے۔ … اسی جنازہ کے ساتھ اذکا رِ متعارفہ بدعت قبیحہ ہیں۔‘‘ (حاشیۃ الطّحطاوي : 332) 2.علامہ ادریس بن بیکدن بن عبداللہ ترکمانی حنفی رحمہ اللہ ( 800ھ)لکھتے ہیں : مِنَ الْبِدَعِ مَا یُفْعَلُ بَیْنَ یَدَيِ الْمَیِّتِ مِنْ قِرَائَ ۃٍ وَذِکْرٍ وَحَمْلِ خُبْزٍ وَخِرْفَانٍ، الْکُلَّ لَا یَرْضَی الْوَاحِدُ الدَّیَّانِ ۔ ’’میت کے آگے قراء ت و ذکر کرنا، روٹیاں اور بکری کا بچہ اٹھانا بدعت ہے، ایک دین دار شخص ان ساری باتوں پرراضی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (کتاب اللّمع في الحوادث والبِدع : 232) |