Maktaba Wahhabi

89 - 96
کو اکٹھے ہی ایک سلام سے ادا کرنے والا ہے اور یہ صرف ایک ہی تشہّد سے ہے، درمیانی قعدہ ثابت نہیں ہے ۔ اور دوسرا طریقہ دو سلاموں والا ہے اور یہ طریقہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے ،لہٰذا اگر کوئی امام دو سلاموں سے تین رکعتیں پڑھاتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی نمازِ وتر باجماعت ادا کرلینی چاہیئے ۔ ویسے بھی جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’ چاروں امام بر حق ہیں ‘‘ ۔ تو پھر کسی بھی امام کے پیچھے کوئی بھی نماز ادا کرنے سے گریز کیوں کیا جائے ؟ خاص طور پر جبکہ یہ دو سلاموں والا طریقہ بھی حدیثِ رسول ﷺ سے ثابت ہے ۔فصیل کیلئے دیکھیٔے ہماری کتاب ’’ نمازِ پنجگانہ کی رکعتیں ‘‘ مسائل و احکامِ وتر و تہجد کا باب ۔ اور اگر وہ اس بناء پر الگ ہوجاتے ہیں کہ پہلے بیس رکعتیں پوری کرلیں اور پھر وتر پڑھیں گے تو بھی اُنہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ وتر امام کے ساتھ پڑھ لینے چاہیئیں کیونکہ اس طرح انھیں انکی جماعت اور اسکا ثواب مل جائیگا اور یہ ہیں بھی تراویح سے اہم ترین۔ لہٰذا اگر مسنون ، آٹھ رکعاتِ تراویح کے بعد بارہ رکعتیں مزید بھی پڑھ کر ضرور بیس ہی کرنا چاہیں تو وہ الگ سے ، رات کے کسی بھی حصہ میں ، مسجد میں یا گھر جاکر پڑھی جاسکتی ہیں، حالانکہ صحیح تر بات صرف مسنون عدد پر اکتفاء کرنا ہی ہے جیسا کہ تفصیل گزری ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں وزارتِ امور اسلامیہ کے تحت کام کرنے والے آئمہ مساجدکی غالب اکثریت نمازِ وتردو سلاموں سے ہی ادا کرتی ہے، اگرچہ ان آئمہ میں سے پاک و ہند اور بنگلادیش سے آئے ہوئے بکثرت پیش امام فقۂ حنفی کے پابند ہوتے ہیں، اسکے باوجود وہ بھی دو سلاموں والے طریقہ سے ہی تین رکعات ِ وتر پڑھاتے ہیں ۔ اب یہ کہنا تو مناسب نہ ہوگا کہ اس معاملہ میں وہ اپنے عرب مقتدیوں سے ڈرتے یا انکی خواہش کے مطابق چلتے ہیں، یہ خیال ’’ حُسنِ ظن ‘‘ کے خلاف ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا ہی زیادہ مناسب ہے کہ وہ فقۂ حنفی کے پابند ہونے کے باوجود تین میں سے دو رکعتیں الگ اور تیسری الگ سلام سے پڑھتے ہیں کیونکہ وہ وسعتِ ظرفی کی بناء پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ طریقہ بھی یقیناً ثابت اور جائز و درست ہے، لہٰذا اُنہی کی طرح ہمیں بھی وسیع الظرف ہونے کا
Flag Counter