Maktaba Wahhabi

75 - 96
سے زیادہ کو عام نفل سمجھتے ہوئے پڑھنے سے منع نہیں کرتے ، اور اس بنیاد پر آٹھ سے زیادہ تراویح پڑھنے سے کوئی بھی تو منع نہیں کرتا ، اور اس نظریہ کے مطابق زیادہ پڑھنے والوں پر واقعی نکیر نہیں کرنی چاہیئے البتہ آٹھ سے زیادہ کو ’’ سنّت ‘‘ تصوّر نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ بقیہ رکعتیں محض نفل کہی جاسکتی ہیں ۔ علّامہ ابن باز رحمہٗ اللہ : سعودی علماء میں سے امامِ عصر علّامہ عبد العزیز بن عبد اللہ ابنِ باز ؒکسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ انکی سربراہی میں کام کرنے والی دائمی فتویٰ کمیٹی کے فتاویٰ کے مجموعہ میں انکی رائے یوں مرقوم ہے : (وَ الأَفْضَلُ مَا کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَفْعَلُہٗ غَالِباً وَ ہُوَ أَنْ یَّقُوْمَ بِثَمَانِ رَکْعَاتٍ یُسَلِّمُ مِنْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَ یُوْتِرُ بِثَلاثٍ مَعَ الخُشُوْعِ وَ الطَّمَأْنِیْنَۃِ وَ تَرْتِیلِ القِرَائَ ۃِ لِّمَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیحَیْنِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللُّٰہ عَنْہَا ۔۔۔ ) مجموع فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ ۷؍۳۱۲ ۔ ’’ افضل وہ ہے جو نبی ﷺ کا غالب و اکثر عمل تھا کہ ہر شخص آٹھ رکعتیں پڑھے ، ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دے ، اور پھر تین رکعات وِتر پڑھے ، اور پوری نماز میں خشوع و خضوع ، سکون و اطمینان اور ترتیلِ قرآن ضروری ہے ، چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں یہی [گیارہ رکعتیں ہی ] ثابت ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۔ اور اس سے آگے موصوف نے صحیح بخاری و مسلم والی وہ حدیث بھی ذکر فرمائی ہے جو ہم اس موضوع کے شروع میں [پہلی حدیث کے طور پر] ذکر کر آئے ہیں ۔ علّامہ ابن عثیمین رحمہٗ اللہ : سعودی علماء میں سے فقیہہِ عصر علّامہ محمد بن صالح ابنِ عثیمین سے کون نا واقف ہے ؟ انھوں نے اپنی مشہور کتاب ’’مجالس شہر رمضان ‘‘ میں لکھا ہے : ’’ سلف صالحینِ امّت نے نمازِ تراویح و وتر کی رکعات میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے ۔ کسی نے 41، کسی
Flag Counter