Maktaba Wahhabi

38 - 96
بیس رکعاتِ تراویح سے تعلق رکھنے والی اس مذکورہ بالا روایت کی استنادی حیثیت تو آپ کے علم میں آگئی ہے، اب آپ خود بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ مرفوع روایت قابلِ حجّت و استدلال نہیں ہے ۔ اب رہی بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی موقوف آثار کی، تو اُن میں سے محدّثین کے نزدیک صحیح سند کے ساتھ مروی حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کا اثر (چوتھی حدیث کے طور پر ) ذکر کیا جا چکا ہے جس میں مذکور ہے کہ انھوں نے حضرت ابیّ بن کعب اور حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں پڑھائیں اور وہی عدد امام مالک رحمہٗ اللہ سے محفوظ تر مروی ہے ۔ پہلا اثرِ فاروقی : یہی گیارہ رکعتوں والا اثر ہی حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے اور مصنف عبد الرزاق والا اثر( جس میں اکیس رکعتوں کا ذکر آیا ہے ) وہ غیر محفوظ اور محض راوی کا وہم ہے ۔ فتح الباری ۴؍۲۵۳، التحفہ ۳؍۵۲۶ ۔ ۴۲۷، نمازِ تراویح ص : ۶۱ ۔ ۶۳ اردو ص : ۴۸ عربی ۔ بلکہ بقول علّامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی :’’ گیارہ رکعات والی حدیث کے مقابلہ میں مصنف عبد الرزاق کا اکیس رکعتوں والا اثر پیش ہی نہیں کیا جاسکتا جیساکہ حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری میں یہی بات کہی ہے اور اسکی متعدد و جوہات ہیں: ایک تو یہ بات ہے کہ اکیس کا لفظ غلطی اور وہم کانتیجہ ہے ’’صحیح لفظ ‘‘گیارہ ہی ہے۔ دوسرے یہ کہ ثقہ رواۃ اکیس کا نہیں بلکہ گیارہ کا ذکر کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ اکیس کی روایت بیان کرنے میں امام عبد الرزاق منفرد ہیں ،اور وہ اگرچہ مشہور و معروف مصنّف و ثقہ اور حافظ ہیں، لیکن عمر کے آخری حصہ میں نابینا ہوجانے کی وجہ سے حافظ خراب ہوگیا تھا، حافظ ابن حجر نے التقریب میں اسکی صراحت کی ہے ۔اور ابن الصلاح نے مقدمہ علوم الحدیث (ص: 407 ) میں امام احمد بن حنبل کا قول نقل کیا ہے کہ امام عبد الرزاق آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے ، جس کی وجہ سے ان کا حافظہ صحیح نہیں رہا تھا ،تلقین کرنے والے کی تلقین کو قبول کر لیتے تھے لہٰذا جن لوگوں نے انکے نابینا ہونے کے بعد اُن سے سنا ہے،
Flag Counter