Maktaba Wahhabi

18 - 96
جانے والی چیز کو وجود میں لانا ‘‘۔جبکہ یہ بھی نہیں کہ یہ تراویح کی جماعت سابق میں بالکلیّہ موجود ہی نہیں تھی ۔ یہ موجود تھی اور اسکا اجراء اسکے سنّتِ رسول ﷺ ہونے کے پیشِ نظر ہی کیا گیا تھا جیسا کہ تفصیل ذکر کی جاچکی ہے ۔ اور یہاں یہ بات بھی ذکر کردیں کہ نبی ﷺ کے چند دن تراویح کی جماعت کرانے کے بعد اسکی جماعت کو ترک کر دینے سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ اس کے بعد پھر عہدِ فاروقی تک دوبارہ کبھی جماعت ہی نہیں ہوئی بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسجد میں گرو ہوں کی شکل میں مختلف آئمہ کی اقتداء میں با جماعت تراویح پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ اثرِ فاروقی کے شروع کے الفاظ : ’’ وَیُصَلِّی الرَّجُلُ وَیُصَلِّیْ بِصلوٰتِہٖ الرَّہْطُ ‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی اکیلے پڑھتا اور ’’کسی کے ساتھ کچھ لوگ ہوتے ‘‘۔ البتہ ایک امام کی اقتداء میں باقاعدہ جماعت کی شکل نہیں تھی جیسا کہ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہاکے آخری الفاظ سے پتہ چلتا ہے ۔ لہٰذا نمازِ تراویح کی جماعت کو معروف معنوں میں بدعت کہنا یا سمجھناہی صحیح نہیں ۔یہ بدعت تب ہوتی جب اِسکا نبی ﷺ سے کوئی ثبوت ہی نہ ہوتا ،حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔یہ تو دیگر کتبِ حدیث کے علاوہ خود صحیح بخاری میں نبی ﷺ کی سنّت ثابت ہے ۔ غرض الفاظِ عمر رضی اللہ عنہ میں وارد لفظِ بدعت از قسم (مشاکلہ)ہے۔ نیز دیکھیئے ہماری کتاب ’’قبولیتِ عمل کی شرائط ‘‘ باب ’’بدعات کا اجمالی تعارف ‘‘ ص : ۱۲۷۔ ۱۳۳ و ص: ۱۹۸ ۔ ۲۱۱ رکعاتِ تراویح کی تعداد : نمازِ تراویح کی رکعتیں کتنی ہیں ؟ اس سلسلہ میں موجودہ تعامل تو آپ کے سامنے ہے کہ کوئی آٹھ (8) تراویح اور تین(3) وتر ، کُل گیارہ(11) رکعتیں پڑھتا ہے ، کوئی دس (10) تراویح اور تین (3)وتر ، کُل تیرہ (13)رکعتیں پڑھتا ہے اور کوئی بیس تراویح (20) اور تین (3)وتر ، کُل تئیس (23) رکعتیں پڑھتا ہے ۔ جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ، علّامہ عینی حنفی نے عمدۃ القاری میں ، امام شوکانی نے نیل الاوطار میں، علّامہ مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذیمیں اور دیگر آئمہ و فقہاء اور اہل علم نے اپنی اپنی کتب میں عہدِ خلافتِ راشدہ کے بعد والے مختلف لوگوں سے رکعاتِ تراویح کی مختلف تعداد نقل کی ہے ۔ ان
Flag Counter