Maktaba Wahhabi

71 - 96
ایک وتر پڑھنا بھی ثابت ہے ۔نمازِ تراویح ص : ۷۹ اردو ، ص : ۷۲ عربی ۔ نواب صدیق حسن خاں کا ارشاد : اجماع کے متعلق علّامہ نواب صدیق حسن خاں (والیٔ ریاست بھوپال ) صحیح مسلم کی شرح السراج الوھّاج کے مقدّمہ میں رقمطراز ہیں : ’’اجماع کا ذکر کرنے میں بہت زیادہ سہل انگاری سے کام لیا گیا ہے ۔ جو شخص فقہی مذاہب سے معمولی واقفیّت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ فقہی مذاہب کے پیروکار اس خیال میں مبتلا ہیں کہ فلاں مذہب کے پیروکار جس مسئلہ پر متفق ہوچکے ہیں انکا وہ اتفاق گویا اجماع ہے ۔ میرے نزدیک اس قسم کا خیال بہت ہی فاسد ہے ۔ نتیجتاً معمولی بصیرت رکھنے والا کوئی شخص جب دیکھے گا کہ فلاں کام عوام میں رواج پذیر ہے تو وہ اس پر اجماع کی چھاپ لگانے کی کوشش کرے گا ، اگرچہ اسکے اس غلط فعل سے مخلوقِ الہٰی کو عظیم خطرات سے ہی کیوں نہ دو چار ہونا پڑے ۔ کسی دلیل کی روشنی میں تو اس قسم کا فیصلہ عوام الناس پر ٹھونسا جاسکتا ہے ، لیکن اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ دعوائے اجماع میں حزم و احتیاط کو ملحوظ ِخاطر نہیں رکھا جاتا بلکہ مشہور چار فقہی مکا تبِ فکر جس مسئلہ میں متفق الرائے ہوں ،وہ اس اتفاق کو اجماع سے تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ متاخرین علماء میں سے امام نووی اور ایسے ہی بعض دیگر علماء دعوائے اجماع کے معاملے میں غیر محتاط ہیں ۔ صحیح مسلم پر انکی شرح میں اسکی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ لیکن یاد رہے کہ محقّقین علماء ایسے اجماع کو حجّت نہیں مانتے کیونکہ مذاہبِ اربعہ کے وجود میں آنے سے پہلے والے تین زمانوں کو خیر القرون قرار دیا گیا ہے اور آئمہ اربعہ کا دور خیر القرون میں سے نہیں ہے ۔ اور پھر انکے دور میں بھی انکے علاوہ کتنے ہی کبار اہلِ علم موجود تھے جو کہ درجۂ اجتہاد پر فائز تھے ۔ اور پھر انکے دور سے لیکر دورِ حاضر تک ہر عہد میں مشہور اہلِ علم و فضل موجود رہے ہیں جو کہ اجتہاد و استنباط کی دولت سے بہرہ ور بھی تھے اور اس حقیقت سے کوئی بھی مُنصف مزاج شخص انکار نہیں کر سکتا، اگرچہ دورِ حاضر میں راہِ
Flag Counter