Maktaba Wahhabi

32 - 96
ﷺ نے ان سے کچھ نہ کہا ‘‘۔ بحوالہ تحفۃ الاحوذی ۳؍۵۲۵۔ ۵۲۶ ،مجمع الزوائد ۳؍۷۴،الفتح الربانی ۵؍۱۵ ، قیام اللیل مروزی ص:۱۵۵ ،اور اس کے آخرمیں یہ الفاظ بھی ہیں : ((فَسَکَتَ عَنْہْ وَ کَانَ شِبْہُ الْرِّضَائِ))’’آپ ﷺ خاموش ہوگئے جو کہ آپ ﷺ کی رضاء مندی کی علامت ہے ‘‘ مجمع الزوائد میں علّامہ ہیثمی کے بقول یہ حدیث حسن ہے اور کسی کام کا آپ ﷺ کے علم میں لایا جانا یا کسی کام کو آپ ﷺ کا بچشمِ خود ملاحظہ فرمانا اور پھر اس پر خاموش رہنا، یہ آپ ﷺ کی رضا مندی کی دلیل ہے جیسا کہ خود اسی حدیث کے الفاظ سے پتہ چل رہا ہے ۔ اور اگر حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ فعل (آٹھ تراویح اور وتر پڑھنا ) صحیح نہ ہوتاتو نبی اکرم ﷺ اس پر نکیر فرماتے ،خاموش نہ رہتے کیونکہ کسی غلط کام کو ہوتے دیکھ کر یا سن کر نکیر کیٔے بغیر خاموشی اختیار کرلینا تو منصبِ نبوّت کے ہی خلاف ہے ۔ چوتھی حدیث : اسی موضوع کی چوتھی حدیث مؤطا امام مالک ،سنن کبریٰ بیہقی ، مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں ہے، جس میں سائب بن یزید رحمہٗ اللہ بیان کرتے ہیں : ((أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ أُبَيَّ بْنَ کَعَبٍ رضی اللّٰه عنہ وَتَمِیْماً الدَّارِیَّ رضی اللّٰه عنہ أَنْ یَّقُوْمَا لِلنَّاسِ اِحْدَیٰ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً وَکَانَ الْقَارِيئُ یَقْرَئُ بِالْمِئِیْنَ حَتَیٰ کُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَی الْعَصَا مِنْ طُوْلِ الْقِیَامِ وَمَا کُنَّا نَنْصَرِفُ اِلَّا فِي فُرُوْعِ الْفَجْرِ )) ۔ ’’امیر المؤمنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابیّ بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہماکو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو گیارہ (11) رکعتیں پڑھایا کریں اور امام ایک ایک رکعت میں سَو سَو آیات پڑھتا حتی کہ ہم تھک کر عصا کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے تھے اور طلوعِ فجر کے قریب جاکر ہم نمازِ تراویح سے فارغ ہوتے تھے ‘‘ مؤطامع تنویر الحوالک للسیوطی ۱؍۱۳۸ ،مشکوٰۃ ۱؍۴۰۷، تحفۃ الاحوذی ۳؍۲۵۶ ، قیام اللیل ص:۱۵۵ ،سنن کبری بیہقی ۲؍۴۹۶ ۔
Flag Counter