Maktaba Wahhabi

79 - 96
ویسے بھی مصادرِ شریعت صرف قرآن و سنّت اور اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ،نہ کہ کسی ملک ، علاقے یا کسی شہر کا کوئی عمل ۔ آلِ سعود کی حکومت سے پہلے حرمین شریفین میں چار مصلّے ہوا کرتے تھے ۔ ایک ہی نماز کی چار آذانیں چار ہی امام اور چار ہی جماعتیں ۔ اب اس کا کیا کریں گے ؟ اور پھر یہ بھی کہہ ہی لینے دیجیئے کہ جن لوگوں کے نزدیک دیگر تمام مسائل و احکام [ اصول و فروع] میں آئمہء حرمین ’’ وہابی ‘‘ اور ناقابلِ التفات ہیں، اُن کے یہاں تراویح کے مسئلہ میں وہ کیسے قابلِ التفات و عمل ہوگئے ؟ لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔ 1۔ اپنے آپ کو اصول و عقائد میں ماتریدی [ اشعری ] ، فروع و احکام میں حنفی اور تصوّف و سلوک میں نقشبندی، سہروردی ، چشتی اور قادری سلسلوں کے پابند ماننے والے اِن ’’ وہابیوں ‘‘ کے پیروکار کیسے بن گئے ؟ جن کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کو دہرانے کے فتوے بھی دیئے جاچکے ہیں۔ اور اگر واقعی ’’ پرانا غصّہ ‘‘ تھوک چکے ہیں تو پھر بسم اللہ کیجیئے جسطرح بیس تراویح میں آئمہ کعبہ و حرمین کو دلیل بنا رہے ہیں، اُسی طرح اصول وعقائد اور فروع و احکام میں بھی انہی کی طرح خالص کتاب اللہ اور سنّتِ صحیحہ پر عمل کا رویہ اپنا لیں ۔کیونکہ اسی میں ہی ہم سب کی بھلائی و نجات ہے ۔ وَ اللّٰہُ الْمُوَفِّقُ آٹھ رکعاتِ تراویح کا ثبوت علماء و فقہاء احناف کی کتب سے : 2۔ سابق میں ہم متعدد صحیح احادیث اور بعض آثارِ صحابہ ث ذکر کر آئے ہیں جنکی رو سے تراویح کا عددِ مسنون آٹھ رکعتیں ہی ہے؟ اور وتروں سمیت گیارہ رکعات ۔ اور اُنہی احادیث و آثار کے پیشِ نظر ہی اورتو اور ، خود ہمارے علماء احناف نے بھی اعتراف کیا ہے کہ تراویح کا عددِ مسنون گیارہ[ مع وتر ] ہی ہے ۔
Flag Counter