Maktaba Wahhabi

48 - 96
جواب یہ ہے کہ اس اثر کی سند میں ابو عبد اللہ بن فنجویہ دینوری ایک راوی ہے جسکا ترجمہ وحالات علّامہ مبارکپوری کو کہیں نہیں ملے اور جو شخص اس اثر کے صحیح ہونے کا دعویٰ کرے اس پر لازم ہے کہ پہلے وہ اس راوی کے ثقہ اور قابلِ حجّت ہونے کا ثبوت مہیّا کرے ۔ رہا مولانا نیموی کا یہ کہنا کہ یہ دینوری اپنے زمانے کے کبار محدّثین میں سے تھا ۔ ایسے شخص کے بارے میں کسی سے کیا پوچھنا ؟ موصوف کا یہ قول قابلِ التفاف نہیں کیونکہ کسی کے محض کبار محدّثین سے ہونے سے یہ تو ہرگز لازم نہیں آتا کہ وہ ثقہ بھی ہو ۔ دیکھیٔے: تحفۃ الاحوذی ۳ ؍ ۵۳۰ ۔ ۵۳۱ ۔ چھٹا اثر : خاص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی بعض آثار ملتے ہیں جن میں بیس تراویح کا ذکر وارد ہوا ہے اور بعض دیگر صحابہ کے آثار بھی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ممکنہ حد تک تمام ہی آثار کو ذکر کر کے انکی استنادی حیثیت واضح کردی جائے تاکہ بات کھل کر سامنے آجائے ۔ لہٰذا آیئے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی آثار کا جائزہ لیں چنانچہ مصنف ابن أبی شیبۃ اور سنن کبریٰ بیہقی میں ابوالحسناء بیان کرتے ہیں : (أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رضی اللّٰه عنہ أَمَرَ رَجُلا ً أَنْ یُّصَلِّی بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً) ۔ تحفۃ الاحوذی ۳؍۵۲۷ و نمازِ تراویح ص: ۶۶،۷۴ عربی۔ ’’ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعتیں پڑھائے ‘‘ ۔ اس اثر کو روایت کرنے کے بعد خود امام بیہقی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ علّامہ ذہبی نے ابو الحسناء کو لَا یُعْرَفُ [ غیر معروف ] اور حافظ ابن حجر نے اسے مجہول[ نا معلوم ] کے اوصاف سے متّصف کیا ہے ۔ اور التہذیب میں حافظ موصوف نے ابو الحسناء کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ قربانی سے متعلّقہ حدیث حکمۃ بن عیینہ عن حنبش عن علي کے طریق سے بیان کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ تراویح والے اس
Flag Counter