Maktaba Wahhabi

31 - 96
ہے کہ اسکی سند اوسط درجے کی ہے۔ میزان الاعتدال ۳؍۳۱۱ نبی ﷺ کی رکعاتِ تراویح کی تعداد ذکر کرنے کیلئے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو فتح الباری میں نقل کیا ہے ۔ اور مقدمۂ فتح الباری میں انکی اپنی صراحت کی رو سے کہ وہ فتح الباری میں جس حدیث سے بھی استدلال کریں گے وہ صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہوگی ۔ اس اعتبار سے یہ حدیث کم از کم حسن درجہ کی ثابت ہوتی ہے ( جو کہ علّامہ ذہبی کے قول کے موافق ہے ) اس حدیث کی سند کے ایک راوی عیسیٰ بن جاریہ پر مولانا شوق نیموی نے اپنی کتاب آثار السنن میں کچھ کلام نقل کیا ہے جبکہ علّامہ عبدالرحمن مبارکپوری نے علّامہ ذہبی رحمہٗ اللہ جیسے( ابنِ حجر کے نزدیک نقدِ رجال میں استقرائِ تامّ کا درجہ رکھنے والے) محدِّث کے مقابلہ میں، انکے کلام کو ناقابلِ التفات قرار دیا ہے ۔ دیکھیئے :تحفۃ الاحوذی ۳؍۵۲۵ ۔ تیسری حدیث : تعدادِ تراویح کے تعیّن اور مسنون عدد کے تقرّر سے تعلق رکھنے والی تیسری حدیث مسند ابی یعلیٰ اور معجم طبرانی اوسط میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں ((جَائَ أُبَيُّّ بْنُ کَعَبٍ اِلَیٰ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ! اِنَّہٗ کَانَ مِنِّیْ اللَّیْلَۃَ شَیٌٔ یَعْنِیْ فِي رَمَضَانَ ؟ قَالَ : وَمَا ذَاکَ یَا أُبَيُّ؟ قَالَ : نِسْوَۃٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ :اِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ ،فَنُصَلِّی بِصَلَوَاتِکَ، قَالَ: فَصَلَّیْتُ بِھِنَّ ثَمَانِ رَکَعَاتٍ وَ أَوْتَرْتُ ،فَکَانَتْ سُنَّۃُ الرِّضَائِ وَ لَمْ یَقُلْ شَیْئَاً ) ’’حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض گزار ہوئے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! آج رات یعنی رمضان کی رات میں مجھ سے ایک کام سر زد ہوگیا ہے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا : اے اُبیّ ! وہ کیا کام ہے ؟ کہنے لگے :میرے گھر کی خواتین نے کہا :ہم قرآن (زیادہ) نہیں پڑھتیں لہذٰا ہم آپ کے ساتھ تراویح پڑھیں گی ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے انھیں آٹھ رکعتیں (تراویح ) پڑھائیں اور پھر وتر ۔ یہ آپ ﷺ کی سنّتِ رضاء (تقریری حدیث )ہے ،کیونکہ آپ
Flag Counter