Maktaba Wahhabi

34 - 96
جس میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( کُنَّا نُصَلِّيْ فِیْ زَمَنِ عُمَرَ فِيْ رَمَضَانَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً )) ۔ ’’ہم عہدِ فاروقی میں ماہِ رمضان میں قیام اللیل کی تیرہ (13) رکعتیں پڑھا کرتے تھے ‘‘۔ قیام اللیل ص: ۹۵ بحوالہ صلوٰۃ التراویح ص:۶۰ و التحفۃ ۳؍۵۲۶ ۔ امام محمد بن اسحاق نے کہا ہے : (وَہَذَا أَثْبَتُ مَا سَمَعْتُ فِيْ ذَالِکَ )۔ فتح الباری ۴؍۲۵۴ ۔ ’’اس سے صحیح حدیث ،تراویح کے سلسلہ میں، مَیں نے دوسری کوئی نہیں سنی ‘‘ ۔ اور تیرہ رکعات کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ محمد بن اسحاق اسمیں منفرد ہیں۔ پانچویں حدیث : تیرہ رکعتوں والی سابقہ روایت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صحیح مسلم والی اس روایت کے موافق ہے جس میں تیرہ رکعتوں کا ہی ذکر ہے لیکن اسمیں فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہیں مسلم و شرح نووی ۳؍۶؍۱۷۔ ۱۹ اسطرح مختلف روایات میں مطابقت بھی ہوجاتی ہے چنانچہ صحیح مسلم میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ((أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یُصَلِّیْ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بِرَکْعَتَي الْفَجْرِ)) ’’نبی ﷺ فجر کی دو رکعتوں سمیت تیرہ (13) رکعات پڑھا کرتے تھے‘‘۔حوالہ سابقہ ۔ مذکورئہ سابقہ تمام احادیث و آثار میں گیارہ رکعتوں کا ہی ذکر آیا ہے اور حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا باقی سب قیامِ رمضان یا نمازِ تراویح کے بارے میں ہی ہیں جبکہ مطلق تہجّد کے بارے میں بھی صحیح بخاری و مسلم اور ابو ادئود میں آٹھ (8) رکعتوں اور وتروں کا ہی ذکر ملتا ہے، زیادہ کا نہیں۔اور ان آٹھ کے ساتھ پانچ وتر یعنی تیرہ رکعتیں یا عشاء کی آخری دو یافجر کی پہلی دو سنتوں سمیت بارہ رکعتوں یا ان میں سے کسی ایک کی سنتوں سمیت دس رکعتوں اور تین رکعاتِ وتر کا تذکرہ ملتا ہے ۔ تحفۃ الاحوذی ۳؍۵۲۴ ۔ ۵۲۷ ۔
Flag Counter