Maktaba Wahhabi

73 - 96
(آٹھ تراویح+تین وتر)ہی ثابت ہیں،اور بیس کی تمام روایات ضعیف وناقابلِ حُجّت ہیں۔پھر امّت کے اجماعی مسائل کو جمع کرنے والے قدیم عالم امام ابن المنذر ( 318 ھ؁ )نے اپنی کتاب الاجماع میں اسکا ذکر تک نہیں کیا۔دیکھیئے: الاجماع بتحقیق ڈاکٹر صغیر احمد البتہ موسوعۃ االاجماع فی الفقہ الاسلامی کے شامی مؤلّف شیخ سعدی ابو حبیب نے حال ہی میں جو یہ کتاب (1394؁ھ، 1974؁ ء میں )مرتّب کی تو اسمیں المغنی ۲ ؍ ۱۳۹ اور بدایۃ المجتہد ۱؍۲۰۲ کے حوالہ سے لکھ دیا کہ نمازِ تراویح بیس رکعتیں ہے اور یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل ہے اورانکے عہدِ خلافت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسی عدد پر اجماع ہوگیا تھا ۔ موسوعۃ الاجماع ۱؍۶۵۵ ۔ جبکہ اس دعوے کی حیثیت متعین کرنے کیلئے تفصیل ہم نے ذکر کردی ہے، اسکی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہے کہ اس دعویٰ کے وقت حزم و احتیاط سے کام نہیں لیا گیا بلکہ یہ سراسر جلد بازی کا نتیجہ ہے، ورنہ صحیح الاسناد آثار سے عہدِ فاروقی میں اور خصوصاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد گیارہ رکعتوں کی دلیل ہے ،اور مرفوع احادیث ا س پر مستزاد ہیں جن سے گیارہ رکعتوں کا ہی ثبوت ملتا ہے، تو پھر بیس پر اجماع کا دعویٰ چہ معنیٰ دارد ؟ مؤلّفِ موسوعہ کو چاہیئے تھا کہ اس اجماع کو اگر نقل کیا ہی تھا تو پھر اس پر بھی اُسی طرح تعلیق و حاشیہ چڑھا دیتے جیسا انھوں نے اسی جلد اول (ص: 669 )پر مدرکِ رکوع کی رکعت کے سلسلہ میں چڑھایا ہے کہ جب کتنے ہی کبار آئمہ و فقہاء ( جن میں سے بعض کے انھوں نے نام لکھے ہیں اور بعض کی طرف اشارہ کیا ہے) مدرکِ رکوع کی رکعت کو نہیں مانتے تو پھر رکعت شمار کرنے پر اجماع کا دعویٰ کرنے والوں پر بھی تعجّب ہے ۔ اس طرح براء تِ ذمہ اور علمی امانت کی ادائیگی ہوجاتی اور بیس تراویح پر اجماع کی قلعی بھی کھل جاتی ۔ اور ص:656 ،658 ، 660 ، 665 پر ہی بس نہیں بلکہ شروع کتاب سے لیکر دونوں جلدوں کے ساڑھے بارہ سو صفحات پر سینکڑوں ایسی تعلیقات موجود ہیں، لیکن شاید کوئی ذہنی تحفّظ تراویح کے مسئلہ
Flag Counter