Maktaba Wahhabi

66 - 96
’’ اب اس سے صاف ظاہر ہے کہ فی الحقیقت حکم تو حکم ِخداوندی ہے اور منصبِ حکومت انبیائے کرام علیہم السلام و امام و قاضی و آئمۂ مجتہدین یا دیگر اُولوا الامر عطائے خدا وند ِ متعال بعینہٖ اس طرح پر ہوگا ،جیسے منصب ِ حکم، حکّام ِ ما تحت کے حق میں عطائے حکّامِ بالادست ہوتا ہے اور جیسے اطاعت ِحکّام ِما تحت سراسر اطاعت ِحکام ِبالادست سمجھی جاتی ہے، اسی طرح پر اطاعتِ انبیائے کرام علیہم السلام و جملہ اُولی الامر بعینہٖ اطاعت ِخداوند جلّ جلالہٗ خیال کی جائے گی اور متّبعین ِانبیائے کرام اور دیگر اولی امر کو خارج از اطاعتِ خداوندی سمجھنا ایسا ہوگا جیسا متّبعین احکام ِحکّام ِما تحت کو کوئی کم فہم خارج از اطاعت ِحکّامِ بالادست کہنے لگے یہی وجہ ہے کہ یہ ارشاد ہوا :[ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَئ ٍفَرُدُّوْہُ اِلیٰ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ وَأُولِيالْأَمْرِمِنْکُمْ] ۔ ظاہر ہے کہ اولی الامر سے مراد اس آیت میں سوائے انبیاء کرام علیہم السلام اور کوئی ہیں، سو دیکھیئے اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ حضراتِ انبیاء و جملہ اُولو الامر واجب الاتّباع ہیں ، آپ نے آیت : {فَرُدُّوْہُ اِلَیٰ اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ}تو دیکھ لی اور آپ کو یہ اب تک معلوم نہ ہوا کہ جس قرآن ِکریم میں یہ آیت ہے ، اُسی قرآن میں آیتِ مذکورہ بالامعروضۂ احقر بھی موجود ہے ، عجب نہیں کہ آپ دونوں آیتوں کو حسبِ عادت متعارض سمجھ کر ایک کے ناسخ اور دوسری کے منسوخ ہونے کا فتویٰ لگانے لگیں‘‘،انتہی۔’’ایضاح الأدلۃ ‘‘(ص:97 )۔ سابقہ عبارت کو غور سے دیکھا جائے کہ مولانا مرحوم کس طرح اہلحدیث عالم کی پیش کردہ آیت: {فَرُدُّ وْہُ اِلیٰ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِن کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ}کے مقابلہ میں ایک دوسری آیت پیش کر رہے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں { فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَئٍ فَرُدُّ وْہُ اِلیٰ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْکُمْ}اور کس طرح اس عالِم اہلحدیث پر پھبتی کستے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ آیت تو دیکھ لی لیکن یہ دوسری آیت معروضۂ احقرکا آپ کو اب تک پتہ نہیں چلا، اب سوال
Flag Counter