Maktaba Wahhabi

46 - 96
کے۔ کیونکہ اسمیں حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے دورِ خلافت کا ذکر بھی ہے ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ہے اور یہی حالت بعض دیگر صحابہ سے مروی آثار کی بھی ہے ۔ ایسے ہی سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کے بارے میں ایک اثر اور بھی ہے جس میں سائب بن یزیدؒ بیان فرماتے ہیں : (کُنَّا نَقُوْمُ فِيْ زَماَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَ الْوِتْرِ )۔ ’’حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہم بیس رکعاتِ تروایح اور وتر کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے ‘‘۔ تحفۃ الاحوذی ۳؍۵۳۰ ۔ اس اثر کی سند کو علّامہ سبکی نے شرح المنہاج میں اور ملّا علی قاری نے شرح مؤطا میں صحیح قرار دیا ہے لیکن یہ انکا تسامح ہے کیونکہ اس اثر کی سند میں ایک راوی ابو عثمان البصری ہے جسکا نام عمرو بن عبد اللہ ہے جسکے بارے میں خود مولانا شوق نیموی نے آثار السنن میں کہا ہے: ’’مجھے کوئی ایسی کتاب نہیں ملی کہ جس میں اسکے حالات مذکور ہوں‘‘۔ اور علّامہ مبارکپوری نے بھی تحفۃ الاحوذی میں لکھا ہے کہ تفحّّص و تلاشِ بسیار کے باوجود مجھے بھی اس راوی کے حالات کہیں نہیں ملے اور لکھا ہے کہ اس اثر کی سند میں ہی ایک دوسرا راوی ابو طاہر الفقیہہ بھی ہے جو کہ امام بیہقی رحمہٗ اللہ کا استاذ ہے ، اور مجھے کوئی ایسا محدّث نظر نہیں آیا کہ جس نے اس کی توثیق کی ہو، لہٰذا جو شخص اس اثر کی سند کو صحیح قرار دے ، اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں راویوں کے بارے میں ثابت کرے کہ یہ ثقہ اور قابلِ حجّت ہیں ۔ اور تاج الدین سبکی نے الطبقات الکبریٰ میں جو کہا ہے کہ وہ (الفقیہہ) اپنے زمانے کے فقہاء ومحدّثین کے امام ،ماہرِ لغتِ عرب اور معرفتِ شرائط میں ید طولیٰ رکھنے والے تھے اور اس موضوع پر انھوں نے ایک کتاب لکھی ،انکی یہ باتیں بھی اس راوی کے ثقہ او ر قابلِ حجّت ہونے کا ثبوت نہیں بنتیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ علمِ حدیث و فقہ ، لغتِ عرب اور معرفتِ شرائط کے جلیل القدر عالم تھے لیکن اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ وہ ثقہ تھے ۔
Flag Counter