Maktaba Wahhabi

43 - 96
دیا ہے اور پھر اسکے بعد انھوں نے متعدد وجوہات و عِلل کی بناء پر اس اثر کو مرجوح ، شاذ اور منکر قرار دیا ہے جسکی تفصیل تو موصوف کی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے اور اسکی تلخیص مختلف چھ علّتوں کی شکل میں شیخ انصاری نے اپنے رسالے میں بھی نقل کی ہے ۔ سرِدست ہم شیخ انصاری کے رسالہ کا تعاقب تو نہیں کر رہے، البتہ یہاں اتنا کہے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں کہ شیخ اسماعیل انصاری نے اپنے ذہنی میلان یا نظریہ کو ثابت کرنے کیلئے اپنے رسالہ کے اندر جو ہاتھ پاؤں مارے ہیں وہ تو مارے ہی ہیں ، انھوں نے تو اپنے اس رسالے کا عنوان تجویز کرتے یا اسکا نام رکھتے وقت بھی بڑے دل گردے سے کام لیا ہے اور ’’ اثر ‘‘ کو ’’ حدیث ‘‘ کا نام دیتے ہوئے ’’ تصحیح حدیث۔۔۔‘‘ کہا ہے نہ کہ ’’ تصحیح اثر ۔۔۔ ‘‘۔ حالانکہ مرفوع حدیث ہم ذکر کرآئے ہیں جسکے ضعیف ہونے پر تمام اہلِ علم متفق ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ موصوف کو حدیث اور اثر کے ما بین پایا جانے والا فرق معلوم نہ ہو ۔ اور محدّثین کے عرفِ عام میں جسے ’’حدیث ‘‘ کہا جاتا ہے ، اُسے ترک کرکے ایک اثر کو حدیث باور کرواتے ہوئے رسالے کا نام ’’ تصحیح حدیث۔۔ ‘‘ رکھنا صحیح و صواب نہیں بلکہ ’’تحقیق و تعاقب‘‘ کی بجائے یہ روش تو انکے اپنے ذہنی رجحان کی تائید میں ’’جانبداری ‘‘کی غمّازی کر رہی ہے ۔ اور جب رسالے کا عنوان اورنام ہی اتنا پُر فریب ہے تو اسکے متن کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ اور اسکے ساتھ کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں ؟ اور رسالے کا نام دیکھ کر بلا اختیار زبان پر آجاتا ہے ؎ خشتِ اول چوں نہد معمار کج تاثر یا میرود دیوار کج ’’ معمار جب کسی عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھے گا تو وہ عمارت کیسے سیدھی کھڑی ہو سکے گی ، آسمان تک بھی لے جائیں ٹیڑھی ہی جائے گی ‘‘ ۔
Flag Counter