Maktaba Wahhabi

29 - 96
یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں ۔ اول شب میں پڑھی گئی تو اس کا نام تراویح ہوا ۔ اور آخر شب میں ادا کی گئی تو اس کا نام تہجد ہوا ۔ اور جب ان دونوں کے اوصاف میں کچھ اختلاف بھی ہے تو اس لحاظ سے اگر اس کے دو نام ہوں تو کیا تعجب ہے ؟ ہاں ! ان دونوں نمازوں کا متغائر النوع ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب یہ ثابت ہوجائے کہ رسول اللہ ﷺ نے تراویح کے ساتھ ساتھ نمازِ تہجد بھی ادا فرمائی تھی‘‘۔ مولانا انور شاہ کا بیان آپ نے پڑھ لیا ، جن کے متعلق مولانا اشرف علی تھانوی کا ارشاد ہے : ’’ اس امّت میں انکا وجود اسلام کی صداقت کی دلیل اور مستقل معجزہ ہے ‘‘ ۔ الفرقان بریلی ،صفر؍ ۱۳۷۲ ؁ ھ۔ اب مزید اطمینان کیلئے مولانا رشید احمد گنگو ہی کا بیان بھی پڑھیئے : ’’ بر اہلِ علم پوشیدہ نیست کے قیامِ رمضان اور قیام اللیل فی الواقع یک نماز است کہ در رمضان برائے تیسیر مسلمین در اولِ شب مقرر کردہ شد ، و ہنوز عزیمت در ادائش آخر شب است … نزد ہموں قائل فرضیّتِ تہجد بر آں حضرت ﷺ تراویح نفس تہجد است علی التحقیق … و بر رائے کسے کہ تہجد رابر آنحضرت ﷺ منسوخ گوید چنانچہ قولِ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہست رواہ مسلم فی صحیحہ پس مواظبتِ تہجد دلیلِ سنّت مؤکّدہ خواہد بود ، و دلائل قولیہ ناظرِ استحباب، مگر تہجدِ رمضان کہ تراویح ست بدلیل قول سنّتِ مؤکّدہ خواہد ماند ۔وَ اللہ اعلم ‘‘۔( لطائف قاسمیہ ص : ۱۳ ۔۱۷ مکتوب سوم ۔ ) ’’اہلِ علم پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ قیامِ رمضان [ تراویح ] اور قیام اللیل [ تہجد ] فی الواقع دونوں ایک ہی نماز ہیں ۔ جو رمضان میں مسلمانوں کی آسانی کیلئے اوّل شب میں مقرر کر دی گئی ہے ۔ مگر اب بھی عزیمت اسی میں ہے کہ آخر شب میں ادا کی جائے … جو لوگ آنحضرت ﷺ کے حق میں تہجد کی فرضیّت کے قائل ہیں انکے نزدیک محقَّق بات یہ ہے کہ تراویح عین تہجد ہے … او ر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تہجد کی فرضیّت رسول اللہ ﷺ کے حق میں بھی منسوخ ہوگئی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے ۔ تو ان کے مسلک کے مطابق تہجد پر آنحضرت ﷺ کی مواظبت ا سکے سنّتِ مؤکّدہ ہونے کی دلیل
Flag Counter