Maktaba Wahhabi

26 - 96
مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے ، دونوں ہی نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں اور بلا جماعت بھی ۔ تہجد میں نبی ﷺ کے ساتھ دوسروں کی شرکت کے واقعات بھی ملتے ہیں ۔ چنانچہ ایک بار حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما شریک تھے ۔ ایک بار حضرت حذیفہ ، ایک بار حضرت ابن مسعود اور ایک بار حضرت جابر رضی اللہ عنہم ۔ صحیح مسلم ۱؍۱۶۰۔۱۶۴ ۔ تراویح کی نماز بھی نبی ﷺ نے صرف تین رات جماعت سے پڑھائی ، اس کے بعد فرضیت کے اندیشہ سے جماعت موقوف کردی ۔ اور گھروں میں پڑھنے کا مشورہ دیا ، اس پر خلافتِ فاروقی کے ابتدائی دَور تک عمل ہوتا رہا ۔ صحیح بخاری ۱ ؍ ۱۴۷۔۱۹۸ ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے حسبِ مشورہ صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اپنے گھروں میں بلا جماعت تراویح پڑھتے رہے ۔ بلکہ جو حضرات مسجدِ نبوی ﷺمیں آتے تھے،ان میں بھی کوئی اکیلا پڑھتا تھا ۔ اور کسی کے پیچھے چند افراد کی ایک ٹولی کھڑی ہو جاتی تھی ۔ ایک ہی نماز ایک ہی مسجد میں مختلف ٹولیوں کے اندر بٹ کر پڑھنے میں کئی خطرات مضمر ہوسکتے تھے۔ اس لیٔے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد میں آنے والوں کو ایک ہی امام کے تحت جمع کردیا ۔ کیونکہ اب فرضیّت کا اندیشہ نہیں رہا تھا ۔ اور نبی ﷺ کی مطلوبہ مصلحت پوری ہوچکی تھی ۔ لیکن خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر حضرات بھی اس جماعت میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اخیر رات میں تراویح پڑھنا افضل سمجھتے تھے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ تراویح کیلئے جماعت نہ ضروری ہے نہ اہم ، اسے باجماعت بھی پڑھ سکتے ہیں اور بلا جماعت بھی ۔ اور بعینہٖ یہی حکم تہجد کا بھی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر ایک ہی نماز کسی زمانہ میں جماعت سے اور کسی زمانہ میں بلا جماعت پڑھی جائے تو محض باجماعت اور بلا جماعت کے فرق سے وہ دونوں دو الگ الگ نمازیں نہیں ہو جاتیں۔ آخر وتر کی نماز بھی گیارہ مہینہ بلا جماعت پڑھی جاتی ہے اور رمضان میں جماعت کے ساتھ ۔ لیکن کیا کوئی اس بات کا قائل ہے کہ گیارہ مہینے تو یہ وتر ہے اور رمضان میں وتر نہیں بلکہ کچھ اور ہے؟
Flag Counter