Maktaba Wahhabi

17 - 96
جبکہ تمام بدعات سے بچنے کے بارے میں ابو دائود ،ترمذی ،ابنِ ماجہ، مسند احمد، صحیح ابنِ حبّان اور سنن درامی میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے : ((مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَیٰ اِخْتِلَافاً کَثِیْراً فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّیْنَ ، عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالْنَوَاجِذِ وَ اِیَّاکُمُ وَ مَحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) ۔ ’’تم میں سے جو شخص ( تا دیر) زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ( ایسے میں )تم میری سنّت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریقہ مضبوطی سے اپنائے رکھنا اور خبردار ! دین میں ایجاد کیٔے جانے والے نت نئے امور سے بچ کر رہنا کیونکہ ہر ایسا طریقہ و بدعت گمراہی ہے ‘‘۔ بحوالہ ریاض الصالحین ص : ۸۷ بمراجعہ الارناؤوط ۔ ان احادیث سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حسنہ و سیّئہ والی تقسیم صحیح نہیں بلکہ ((کُلّ)) کے لفظ سے نبی ﷺ نے ہر بدعت کو ہی گمراہی و موجبِ جہنّم قرار دیاہے ۔ ثانیاً : اِس اثرِ فاروقی سے بدعاتِ حسنہ پر استدلال کے صحیح نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضر ت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے ارشاد میں جو لفظ (( بِدْعَۃ)) استعمال ہوا ہے وہ اپنے متبادر و معروف معنوں میں نہیں ہے بلکہ یہ تو ( مشاکلہ ) ہے جو کہ عربوں میں معروف تھا کہ ایسا لفظ استعمال کرنا جس سے اسکا اصل معنیٰ نہیں بلکہ کوئی دوسرا معنیٰ مراد ہوتا ہے ۔ خود قرآنِ کریم میں اس مشاکلہ کی مثال موجود ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ آیت :۱۳۸ میں ارشادِ الہٰی ہے : {صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً } ’’اللہ کا رنگ [دینِ اسلام]،اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہوسکتا ہے؟ ‘‘ یہاں{صِبْغَۃ}سے اِسکا متبادر و معروف لغوی معنی رنگ یا پائوڈر تو نہیں ،بلکہ ’’دینِ اسلام ‘‘ مراد ہے ۔ اسی طرح ہی قولِ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ میں بدعت سے مراد صرف یہ ہے:’’گزشتہ ایام میں نہ پائی
Flag Counter