Maktaba Wahhabi

58 - 191
لیے تھوڑی دیر کے لیے ذہن کو اپنی طرف پھیرلیتا ہے اور عام آدمی جس کی نظر اپنی اور عام قومی تاریخ پر نہ ہو، اس سے ٹھو کر کھاسکتا ہے لیکن آپ تھوڑی سی گہرائی میں جائیں توآپ یقین کریں گے کہ اس استدلال میں بہت کافی خلاء ہے جس نے دلیل کوقطعی بے کار کردیا ہے۔ ۱۔ اُس وقت کی حکومتوں کو آج کل کی حکومتوں کے مزاج پر قیاس کرنا دُرست نہیں، آج کی حکومتوں کے مزاج ہیں جمہوریت کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ شخصی حکومتیں اور ملوکیتیں بھی اس امتزاج سےخالی تھیں۔ ا س لحاظ سے پوری دنیا کا مزاج بدل چکاہے۔ ا ستبدادکافی حد تک ختم ہوچکا ہے اس لیے اُس وقت کی شخصی بادشاہتوں کو آج کی جمہوری حکومتوں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ۲۔ اُس وقت کے مستبد بادشاہ اپنے قریبی اعزہ اور اقارب کوبھی عموماً دشمن بنالیتے تھے۔ ملوکیت کی پوری تاریخ اس قسم کےحوادثات سے بھری پڑی ہے۔ بھائی نے بھائی کوقتل کرادیا۔ بیٹے نے باپ کےخُون سے ہاتھ رنگ لیے۔ ا یسے لوگوں کے لیے عصبیت اور ان کی حمایت میں سازشیں اور بغاوت کون کرے۔ ۳۔ یہ دُرست ہے کہ مروان الحمار کی حکومت کےخلاف بغاوت کے لیے خراسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی اس لیے نہیں کہ اس میں فارسی عنصر زیادہ تھا۔ اس بغاوت کے سرغنہ تو عرب ہی تھے یعنی ہاشمی اور عباسی اہل بیت کی حمایت کے بہانہ سے یہ لوگ وہاں سازشیں کررہے تھے۔ ان میں فارس کے شاہی خاندان کے فارسی ہمدردوں کا تاریخ میں کوئی پتہ نہیں چلتا ہے۔ بغاوت کے لیے یہ مقام اس لیے انتخاب کیاگیا کہ یہ پایۂ تخت یعنی شام سے کافی دور تھا۔ اطلاعات پہنچنے میں دیر ہوتی اور سرکوبی کے انتظامات کی وہاں تک رسائی کا فی مشکل ہوتی۔ یہ
Flag Counter