Maktaba Wahhabi

88 - 269
ابھی جہالت برقرار تھی؟ انسان کا دل دہل جاتا اور سر چکرانے لگتا ہے جب وہ یاد کرتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک گناہ گار ہاتھ نے خنجر مارا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک خارجی گروہ نے شہید کیا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک باقاعدہ سازش کی گئی اور انھیں دھوکے اور غدر سے شہید کیا گیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں اور کمزور عورتوں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پینے دیا گیا اور انھیں بری طرح شہید کر دیا گیا۔ آخر کیوں؟ کیا حسین رضی اللہ عنہ نے کوئی جرم کیا تھا؟ کیا وہ کسی کے خلاف لڑے تھے؟ کیا انھوں نے کوئی ملک یا خلافت چھینی تھی؟ ہرگز نہیں! بس وہ ایک فتنہ تھا جس سے عمار رضی اللہ عنہ پناہ مانگا کرتے تھے۔ اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ سے خلافت کی قمیص چھینی گئی محض امت مسلمہ کے اتحاد کو توڑنے، فتنہ پھیلانے اور مسلمانوں کی جمعیت میں انتشار پھیلانے کے لیے… سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی محض اسی مقصد کے لیے شہید کیا گیا۔ جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمارے دل دہل جاتے ہیں کہ کیسے تھے وہ لوگ اور ان کے قائد جنھوں نے اپنے دین کے لیے ہجرت کی اور اپنا سب کچھ چھوڑ دیا، مال کے ساتھ ساتھ اولاد اہل و عیال اور دوست احباب کو بھی چھوڑ دیا تھا۔ کس چیز نے ان نفوس مقدسہ کو تبدیل کر دیا تھا؟ کس نے ان کے مزاج بدل ڈالے تھے؟ ان دلوں کو کس نے مردہ کر دیا تھا؟ روایات کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک کوفہ کے قلعہ میں لے جایا گیا جہاں امویوں کا نیا گورنر عبیداللہ بن زیاد بیٹھا ہوا تھا۔ لشکرِ زیاد نے ایک بے یارو مدد گار مقدس خانوادے کو شکست دے کر گویاایک
Flag Counter