Maktaba Wahhabi

265 - 269
مصیبتوں کو دور فرما دیتا ہے۔ اے اللہ! ہم تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں، ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ! ہم کو پر سکون اور نفع مند پانی پلا، اے اللہ! ہم صرف تجھی سے اُمید رکھتے ہیں، تیرے سوا کسی کو نہیں پکارتے، اے اللہ! اپنی پریشانی، بھوک اور کمزوری کی تجھ ہی سے شکایت کرتے ہیں۔ اے اللہ! اپنی رحمت سے پریشان حال لوگوں کی مدد فرما، اس سے پہلے کہ یہ لوگ لکڑی بن جائیں اور ہلاک ہو جائیں۔ یقیناً تیری رحمت سے کافر قوم ہی نا اُمید ہوتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کر لیااور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر پہاڑوں کی طرح بادل امڈ آئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی یہاں تک کہ نشیب ٹیلوں کے برابر ہو گئے، زمین سر سبز و شاداب ہو گئی اور لوگ عباس رضی اللہ عنہ کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھے: ’’اے حرمین کے ساقی! تجھے مبارک ہو۔ ‘‘ [1] شاعر رسول صلی اللہ علیہ وسلم حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر اشعار کہے جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’امیر المومنین نے لوگوں کی خشک سالی اور تنگی کا ماجرا سنایا تو اللہ نے عباس کے ذریعے بارش برسائی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصبہ میں یہی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کام میں وارث بنے۔ عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہی نہیں تھے بلکہ باپ کی طرح تھے۔ اس بارش نے مرجھائے ہوئے شہروں کو شگفتہ کر دیا، مدتوں بعد مردہ زمین پھر سرسبز و شاداب ہو گئی۔‘‘ [2]
Flag Counter