Maktaba Wahhabi

151 - 269
قبیلے کو حکم دیا کہ وہ چادر کا ایک ایک کنارہ پکڑے اوراسے وہاں رکھ دے۔ یوں تنصیب حجراسود کا یہ مشکل ترین مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اور لوگ دوبارہ اپنے اس تعمیراتی سلسلے میں سرگرم عمل ہو گئے۔ اسی دن سے عبداللہ رضی اللہ عنہ اس شخصِ امین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت کرنے لگے اور ہر لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پیشوا اور آئیڈیل جاننے لگے۔ وہ جو حکم دیتے اس کی پیروی کرتے۔ عبداللہ روزانہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں جاتے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوتے تو بیٹھ جاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگتے۔ ایک روز آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہ آئے، بہتیری کوشش کی مگر نہ مل سکے، آخرکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو گھر والوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حراء میں تشریف لے گئے ہیں۔ یہ اپنے گھر واپس آئے، ان کے چہرے پر غم و اند وہ کے آثار تھے۔ دراصل وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں تھے کہ وہ کب آئیں گے؟ ایک دن صبح صادق کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور بادِ نسیم روح افزا منظر پیش کر رہی تھی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جائے نماز میں سجدے کی حالت میں اپنے رب کی عبادت میں مشغول تھے اور یکسوئی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھنٹی کے بجنے جیسی آواز سنی۔ جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے رب کے کلمات﴿ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ ’’اور آپ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں۔‘‘[1] کا حکم لے کر تشریف لائے۔ جونہی سورج ایک یا دو نیزے کے بقدر بلند ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا کی جانب تیز تیز چلنے لگے اور اس پر چڑھ کر پکارنے لگے: ’یا صباحاہ! یا صباحاہ!‘ (یہ ایسا کلمہ ہے جو
Flag Counter