Maktaba Wahhabi

150 - 269
انھیں گریہ زاری اور دعائیں کرتے دیکھا۔اس دوران دھیمی دھیمی آہ و بکا کی آوازیں بھی آنے لگتیں لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ آپ یہ سارا منظر دیکھنے کے بعد برق رفتاری سے دوڑتے ہوئے اپنی ماں کی گود میں جا گرتے اور ضد کرکے پوچھنے لگتے کہ یہاں لوگوں کی آمد کا مطلب کیا ہے؟ وہ شفقت سے جواب دیتی یہاں تک کہ آپ اونگھنے لگتے، وہ آپ کو تھپتھپاتی اور اپنے بستر میں سلا دیتی، پھر رب کعبہ سے دعائیں کرتی کہ وہ آپ کی حفاظت فرمائے۔ ایک روز پھر آپ پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں روتے ہوئے ماں کے پاس آئے کیونکہ آپ نے چند لوگوں کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ کی دیواریں اور ستون گرا رہے ہیں۔ وہ اپنی ماں سے پوچھنے لگے: امی جان! یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کی والدہ نے تسلی دی اور بتایا کہ وہ اسے دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں تا کہ چوروں کے ہاتھ اس کی دیواروں تک نہ پہنچ سکیں جنھیں سیلاب نے منہدم کر دیا تھا کیونکہ وہ اس میں پڑے زیورات اور جواہرات چرا لیا کرتے تھے۔ عبداللہ نے بیت اللہ میں حجر اسود کو نصب کرنے کی و جہ سے قبائل کا باہمی بغض و عناد، اسلحہ لہرانا اور ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دینے کامنظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آخر کار انھوں نے طے کیا کہ ہم اس شخص کو حاکم مانیں گے جو ان کے پاس سب سے پہلے آئے گا، پھر وہ ایک قبیلے کا چناؤ کرے گا جو حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کا شرف حاصل کرے گا۔ وہ شخص امین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنھوں نے طے کیا کہ اس کو رکھنے میں تمام قبائل برابر کے شریک ہوں گے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر بچھائی، اس میں حجرِ اسود رکھا اور ہر
Flag Counter