Maktaba Wahhabi

141 - 269
نکل جاتے اور میدانِ قادسیہ کی طرف سے آنے والے کسی قاصد کا انتظار کرتے رہتے۔ ان کا دل اس وقت تک مطمئن نہ ہوا جب تک جنگ قادسیہ میں فتح کی نوید لانے والا قاصد دارالامارہ نہ پہنچ گیا۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قاصد کو دیکھا تب ہی انھیں سکون ہوا۔ قاصد کے پیچھے بھاگتے ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں خاک آلود ہو گئے تھے لیکن انھیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ مجاہدین کے متعلق ہر خبر سن لیں۔ مدینہ کے مسلمانوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انھوں نے تعجب کیا کہ پیغام لانے والا اپنی سواری کو دارالامارہ کی جانب دوڑا رہا ہے اور امیر المومنین اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ دراصل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ کسی مسلمان سپاہی کو راستے میں روکیں اور میدانِ جنگ کے متعلق حالات دریافت کر کے اس کی منزل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کریں اگرچہ اس کی منزل خلافت کا صدر مقام اور اس کا مطلوب خود امیر المومنین ہی تھے۔ جب قاصد کو امیر المومنین کے بارے میں علم ہوا تو اس نے ایک مومن کے شایانِ شان اور عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہا: ’’آپ نے مجھے کیوں نہیں بتلایا تھا کہ آپ ہی امیر المومنین ہیں؟‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انتہائی عاجزی اور تواضع اختیار کرتے ہوئے جواب دیا: ’’کوئی حرج نہیں اے میرے بھائی! اللہ تمھاری مغفرت کرے۔‘‘ اہلِ کوفہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے خلاف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ شکایات کیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمرو بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے اہلِ کوفہ کے ساتھ برتاؤ کی تفتیش کے لیے بھیجا۔ اہلِ کوفہ میں سے ایک آدمی نے کہا: ’’سیدنا سعد رضی اللہ عنہ
Flag Counter