Maktaba Wahhabi

140 - 269
انسان تھے جو اپنے دن کا بیشتر حصہ اپنی دکان میں تیر تراشتے اور ان کی اصلاح کرتے ہوئے گزارتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں تھے۔ اسلام اور قرآن نے ان کی صلاحیتوں کو نکھارا اور ان اونٹوں کے چرواہوں کو حق کا راہی بنا دیا۔ ان جفا کش عربوں کو، جو معمولی معمولی باتوں پر جنگ کے شعلے بھڑکا دیتے تھے، اللہ وحدہ لا شریک کے داعی کے طور پر چن لیا۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے انھیں ہماری آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ لیکن عبرت و نصیحت قرآن کے وجود سے نہیں آتی بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے اور اس کے اصولوں کو اپنانے سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے لیے یہ مثال بے جا نہ ہو گی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے عہدِ خلافت کے دوران میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک زبردست کنٹرولر کی حیثیت سے شریک رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے معرکوں سے غافل نہیں رہتے تھے بلکہ قائدین کو برابرہدایات جاری کرتے رہتے تھے۔ وہ مدینہ میں رہ کر مجاہدین کے پشتیبان تھے اور ان کے ساتھ جنگوں میں اہم مفکر و مدبر کی حیثیت سے حصہ دار تھے۔ مشورے کے ذریعے سے ان کی کمر تھپتھپاتے اور کمک روانہ کرتے تھے۔ قادسیہ کے معرکے میں وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پل پل کی خبر لیتے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ سعد رضی اللہ عنہ انھیں مسلمانوں کے حالات سے باخبر رکھیں، گویا وہ ان کے ساتھ ہی ہیں اور میدانِ جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ کنٹرول روم سے میدانِ جنگ پر نظر رکھنے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ روزانہ مدینہ کی شارع عام کی طرف
Flag Counter