Maktaba Wahhabi

87 - 132
ہے کہ اسے بنیاد بنایا جائے، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر آمادہ کیاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہونے کے ناطے یہ حرف اس اولیت کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘ اور امام زرقانی رحمہ اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’معنی قول عثمان رضی اللّٰه عنہ للرہط القرشیین الثلاثۃ:’’إذا اختلفتم وزید فی شئ من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانہم ففعلوا‘‘فقد فہم بعضہم من ہذہ الجملۃ أن عثمان أمر أن یترکوا ستۃ أحرف ، ویقتصروا فی نسخ المصاحف علی حرف قریش، ولغتہم وحدہم ، وہذا مردود بوجوہ:أحدہما:أن اللفظ لا یؤدی ذلک المعنی۔ ثانیہا: أن القرآن فیہ کلمات کثیرۃ من لغات قبائل أخری ولیست من لغۃ قریش۔ ‘‘ [1] ’’جب تمہارے اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی معاملہ میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان پر لکھنا ، کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘ تین قریشی اراکین سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا مطلب بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے چھ حروف کو ختم کر کے صرف قریش کے حرف اور ان کی لغت کے مطابق مصاحف کو مدون کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن ان لوگوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا یہ مطلب اخذ کرنا کئی لحاظ سے غلط اور قابل رد ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ الفاظ اس مفہوم کی قطعا ترجمانی نہیں کر تے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں بے شمار ایسے الفاظ بھی ہیں جو لغت ِ قریش کے بجائے دیگر قبائل ِعرب کی لغات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ ان دلائل کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مؤخر الذکر رائے ہی
Flag Counter