Maktaba Wahhabi

86 - 132
بلسانہم۔‘‘’’ (اختلاف کی صورت میں) اسے قریش کی زبان میں لکھنا ، کیونکہ قرآن کریم انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قطعاً یہ مقصدنہیں تھا کہ تم چھ حروف کو ختم کر دینا، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کریم کاایک بڑا حصہ قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے یا یہ کہ نزول ِقرآن کا آغاز قریش کی زبان میں ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم وجوہ ِقراء ات اور قراء ات ِمتواترہ کے اختلافات کے تناظر میں غور کرتے ہیں تو اس میں ایک بڑا حصہ ہمیں ایسا بھی نظر آتا ہے جو لغتِ قریش کے علاوہ ہے۔ نیز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف اختلاف کی صورت میں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اتفاق کی صورت میں ان کو ہر اس لغت پر لکھنے کا اختیار تھا ، جس کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عرضہ اخیرہ کے موقع پر پڑھا تھا۔چنانچہ امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’إنہ نزل أوَّلاً بلسان قریش أحد الأحرف السبعۃ ، ثم نزل الأحرف السبعۃ المأذون فی قراء تہا تسہیلا و تیسیرا ، فلما جمع عثمان الناس علی حرف واحد ، رأی أن الحرف الذی نزل القرآن أوَّلاً بلسانہ أولی الأحرف ، فحمل الناس علیہ لکونہ لسان النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم م ولما لہ من الأولیۃ المذکورۃ۔‘‘ [1] ’’آغاز میں قرآن کریم قریش کی زبان میں نازل ہوا تھا۔اور سات حروف میں سے ایک حرف لغت ِ قریش پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد امت کی آسانی و سہولت کے لئے سات حروف میں قراء ۃ کی اجازت دی گئی۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورہ سے امت کو ایک حرف پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے سوچا کہ جس حرف پر آغاز ِ اسلام میں قرآ ن کا نزول ہوا تھا ، وہ حرف زیادہ مستحق
Flag Counter