Maktaba Wahhabi

31 - 132
مبحث ثانی: قواعدِ حدیث عمربن خطاب رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اہم اصول و قواعد اور انتہائی واضح مفاہیم پر مشتمل ہے۔ یہ حدیث علم القراء ات کے طلباء و محققین کے لئے ایک اہم مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں تعلیم و تربیت اور اختلاف کو حل کرنے کے متعدد راہنما اصول بتائے گئے ہیں۔ یہ حدیث اس درخشاں تہذیب و تمدن اور کلچرکی ایک جھلک پیش کرتی ہے جس پر دور اول کی جماعت قائم تھی۔نیز اس حدیث میں ایسے واضح اشارات موجود ہیں جن سے بآسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سبعہ احرف کی حقیقت کیا ہے ؟اور قراء ات کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے؟ ذیل میں اس حدیث سے مستنبط بعض اہم قواعدو اصول کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ پہلا اصول:… اس حدیث سے یہ حقیقت مبرہن ہوتی ہے کہسات حروف، جن پر قرآن نازل ہوا تھا ، کا سر چشمہ (اجتہاد نہیں ) بلکہ سند اور روایت ہے۔یہ تمام وجوہ ِقراء ات معلم اول نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حاصل کی گئی ہیں۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ سے حاصل کیا تھا۔اس کی دلیل عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے: ’’ فإذا ہو یقرء ہا علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیہا رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ ’’وہ متعدد ایسے حروف پر قراء ت کر رہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ ’’أقرأنیہا رسول اللّٰہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسے ہی پڑھایا ہے۔‘‘اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قراء ۃ انہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی اور قراء ت کا مآخذ وحی ربانی ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ہکذا أنزلت‘‘ کہہ کردونوں صحابہ کی قراء ۃ کو درست قرار دیا۔اور قرآن حکیم بھی اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے: ﴿ وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ﴾ (النمل:۶)
Flag Counter