Maktaba Wahhabi

55 - 132
آپ نہیں دیکھ رہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو گردن میں کپڑا ڈال کر کھینچا ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے باوجود اس کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آئے۔ اوراس سلسلہ میں انہیں معذور سمجھا ، کیونکہ اجتہادی غلطی کے باوجود ان کا مقصد درست تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ ہشام رضی اللہ عنہ غلطی پر ہیں۔ انہوں نے یہ استدلال اپنے اس اجتہاداورغالب خیال کی بنیاد پر کیا تھا کہ سبقتِ اسلام کی وجہ سے انہیں حفظِ قرآن میں جو دسترس حاصل ہے، وہ متاخر اسلام ہونے کی وجہ سے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو حاصل نہیں ہے۔اور انہیں یہ خدشہ تھا کہ قراء ۃ میں جو پختگی مجھے حاصل ہے ، وہ شاید ہشام بن حکیم کو حاصل نہیں ہے۔‘‘ [1] تیسرا فائدہ: زیر بحث حدیث یہ واضح کرتی ہے کہ جھگڑے کی صورت میں ایک دوسرے کے بارے جائز حد تک صرف وہی بات کہی سکتی ہے یا زیادہ سے زیادہ وہی قدم اٹھایا جا سکتا ہے جس پر حد یا تعزیر لاگو نہ ہوتی ہو۔ایسی صورت میں( یہ اقدام ظلم )اور یہ گفتگو غیبت محرمہ قرار نہیں پائے گی۔چنانچہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’دوران نزاع عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو جو باتیں کہیں ، وہ اس معاملے میں درست ہیں،کیونکہ اس میں باتیں ہی نہیں ، بلکہ اس سے ایک قدم آگے دست درازی بھی ہے۔ اور یہ یقینا ایک جائز قدم تھا جو عمر فاروق نے اٹھایا کیونکہ یہ ان کی ذات کا نہیں بلکہ دین کا معاملہ تھا۔‘‘ [2] چوتھا فائدہ اس حدیث کی روشنی میں ایک اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم آخری اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان کسی بھی تنازع کی صورت
Flag Counter