Maktaba Wahhabi

54 - 132
اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتاب اللہ کے ساتھ خیرخواہی کا مطلب:اس کی تعظیم کرنا ، اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا، اسے خوبصورتی کے ساتھ پڑھنا۔اس کی تلاوت کو انتہائی خشوع حضوع کے ساتھ سننا ، تلاوت میں حروف کے مخارج کا خیال رکھنا، غلط تشریحات سے گمراہی پھیلانے والوں اور طعنہ زنی کرنے والوں سے اس کی حفاظت کرنا ہے۔ ‘‘[1] دوسرا فائدہ: اس حدیث سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص تاویل کرتے ہوئے اسلام کے کسی امرکا انکار کر دے ،جبکہ وہ اپنے خیال میں اس تاویل و تشریح کو صحیح سمجھتا ہے تو اس کے ساتھ رواداری اوردرگزر سے کام لیا جائے گا۔ (اس بنیاد پر اسے ملامت کا نشانہ بنانا یا دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا جائز نہیں ہے۔) جیساکہ اس حدیث میں ہے کہ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو گردن سے پکڑکر خدمت اقدس میں پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنے کی بجائے یہ کہا: أرسلہ‘‘ اس کو چھوڑدو۔ ‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تاویل کو نظر انداز کیا اور حفاظت ِقرآن کے بارے ان کی حساسیت کو تسلیم کیا۔چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عمر رضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ کی حدیث کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: باب ما جاء فی المتأولین ’’ تاویل کرنے والوں کے متعلق حدیث میں کیا حکم آیا ہے؟‘‘ امام عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’علماء کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ ہر تاویل کرنے والا اپنی تاویل میں معذور ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر لسان عرب میں اس تاویل کی گنجائش موجود ہو، یا اس کی کوئی علمی توجیہ ممکن تو ایسے شخص کو ملامت وتنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ کیا
Flag Counter