Maktaba Wahhabi

116 - 132
کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آسانی کی درخواست کی تو اللہ کی طرف سے تین حروف عطاکر دیئے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار آسانی کے مطالبہ پر بالآخر سات حروف کی اجازت دے دی گئی۔ اور ابو بکرہ کی حدیث میں ہے کہ(سات حروف کی اجازت ملنے کے بعد) میں نے پھر میکائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا تو وہ خاموش رہے۔ میں نے سمجھ گیا ہے کہ اب مزید اضافہ کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔ [1] ان احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سات کے لفظ سے سات کا حقیقی عدد ہی مراد ہے۔ [2] اورسات کے ساتھ جمع قلت کا تذکرہ بھی اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ سات کے عدد سے کثرت مراد نہیں ہے۔ نیز جمہور علماء کا موقف بھی یہی ہے کہ سات کے عدد سے حقیقت مراد ہے ، اگرچہ اس کی تعیین میں ان کا اختلاف ہے۔ سات حروف کے مفہوم کے متعلق علماء کے مختلف اقوال یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ، جیسا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے۔قرآن کریم کے سات حروف پر نازل ہونے سے کیا مراد ہے ؟اس سلسلہ میں نظریات کا شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ محققین نے اس پر سالوں غور وخوض کرتے رہے۔ امام ابن الجزری رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ولا زلت أستشکل ہذا الحدیث ، وأفکر فیہ ،وأمعن النظر من نیف و ثلاثین سنۃ حتی فتح اللّٰه علیَّ بما یمکن أن یکون صوابا إن شاء اللّٰہ۔‘‘[3]
Flag Counter