Maktaba Wahhabi

114 - 132
ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم میں امر و نہی کا بیان پڑھ رہا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر وعدہ اورو عید کا بیان نہ پڑھنا شروع کر دے۔بلکہ ان کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایک قراء ۃ پڑھ رہا ہے تو اسے چھوڑ کر کسی دوسری قراء ۃ کی طرف منتقل نہ ہو جائے۔یہاں حرف سے ان کی مراد قراء ۃ ہے۔ اسی طرح اہل عرب جب کسی آدمی کی قراء ۃ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں تو اسے حرف ِفلان سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘ اور بعض کا نقطہ نظریہ ہے کہ لفظ ’حرف ‘ یہاں مشترک لفظی ہے۔ اور مشترک لفظی کی مراد جب کسی قرینہ سے واضح نہ ہو تووہ مشکل ہی رہتا ہے۔ لیکن عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث واضح کر رہی ہے کہ لفظ ِ حرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے قطعاً مشکل اورکوئی معما نہیں تھا ،بلکہ یہ لفظ ان کے ہاں ہر لحاظ سے انتہائی محکم تھا۔ چنانچہ انہوں نے جونہی زبان ِنبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے: هَكَذَا أُنْزِلَتْ ’’ اسی طرح نازل ہوا ہے۔ ‘‘کے الفاظ سنے،شک رفع اور نزاع ختم ہو گیا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ مشکل یا مشترک لفظ ایک سے زائد معانی کا حامل ہونے کی وجہ سے متنازع امور میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ [1] اور سات کا عدد یہاں حروف کی صفت ہے اور یہ چھ سے اوپر اور آٹھ سے کم عدد ہے جو معدود (موصوف ) مذکر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہاں اس سے سات کا مخصوص اور حقیقی عدد مراد ہے ، کثرت مراد نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان نبوت سے اس لفظ کو سات فرمایا اور اسے حروف سے تعبیر کرتے ہوئے وحی الٰہی کی طرف منسوب فرمایا۔ لیکن بعض علماء جیسے قاضی عیاض کا خیال ہے کہ یہاں سات کے لفظ سے سات کا حقیقی عدد مراد نہیں ہے ، بلکہ تسہیل اور آسانی کے پیش نظر یہاں اس سے کثرت مراد ہے۔ جیسا کہ اہل عرب کا طریقہ کے وہ سات اور ستر کے عدد کو کثرت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ٍچنانچہ فرمان الٰہی ہے:
Flag Counter