Maktaba Wahhabi

108 - 132
اجازت تھی، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت میں جب اس قسم کی قراءات اختلاف کا باعث ہوئیں اور ان کی بناء پر لوگوں نے ایک دوسرے کو کافر قرار دینا شروع کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرضہ اخیرہ کے مطابق امت کو ایک مصحف پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا اور دیگر تمام قراء ات کو تلف کروا دیا۔‘‘[1] اس سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مختلف وجوہ ِقراء ات میں ترقیق و تفخیم ، ابدال و تحقیق اور تقدیم و تاخیرکی وجہ سے امت کے لئے پیدا ہونے والی آسانی یقینا سبعۃ احرف کی رخصت کا نتیجہ ہے۔اور امالہ اور فتح وغیرہ کی صورت میں مختلف وجوہ قراء ات اور متعدد لغات کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ عرضہ اخیرہ میں ساتوں حروف کا ایک حصہ باقی رکھا گیا تھا۔چنانچہ امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لغات ِعرب کی یہ تمام تر وجوہ ِقراء ات ، ان ہی پر قرآن کریم کو نازل کیا گیا تھا۔ انہیں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اور انہیں کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم کو پڑھایا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام قراء ات کی اجازت دی تھی۔اور جس نے بھی ان کے مطابق قراء ۃ کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان اقدس سے اس کی قراء ۃ کو درست قرار دیا۔جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زیر بحث حدیث سے واضح ہے۔‘‘ [2] اور امام صفاقسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قراء ات ِعشرہ جو ہمیں بذریعہ تواتر پہنچی ہیں اور دیگر وہ قراء ات جو کبھی متواتر تھیں ، لیکن پھرمرور ِزمانہ سے ان کا سلسلہ تواتر قائم نہ رہ سکا ،ان سب قراء ات کا ماخذ و منبع یہی سات حروف ہیں۔ اس لئے کہ قرآن کریم کو روز قیامت تک
Flag Counter