Maktaba Wahhabi

442 - 467
ڈاکٹر امین رویحہ کہتے ہیں ’’جب ظہر کے بعد ہم دوبارہ دیکھنے کیلئے ان کے پاس گئےتو الشیخ عبدالرحمٰن الطیشی ان کے سامنے ٹیلیگرام پڑھ رہے تھے۔ ہم نے جب مزاج پرسی کی تو انہوں نے فرمایا الحمد اللہ۔ اچھا ہوں لیکن زیادہ نہیں۔‘‘ یہ بات انہوں نے مسکرا کر کہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا چہرہ دیا تھا جو اتنا بارعب تھا کہ دشمنوں کے دل دہل جاتے تھے۔ ان کی مسکراہٹ ایسی تھی جس میں نفسانی بڑائی نہ تھی۔ تواضع تھی۔ یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ کہ وہ مصنوعی مسکراہٹ کا اظہار کر سکے۔ یہ ان کی زندگی کی آخری مسکراہٹ تھی۔ جس سے ان کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ شہزادوں کو بلانے کی ضرورت نہیں بعض شہزادے سرکاری امور کے انجام دہی یا علاج کیلئے ملک سے باہر گئے ہوئے تھے۔ جب ان کی بیماری کی خبر پھیلی۔ تو تمام شہزادوں نے ٹیلیگرام بھیجے اور واپس آنے کی اجازت طلب کی۔ شاہ عبدالعزیز نے ان کو جواب دیا ’’ واپس آنے کی ضرورت نہیں۔ اب وہ صحت مند ہیں۔‘‘ اس طرح وزیر خزانہ عبداللہ السلیمان،شیخ یوسف یاسین،سیکرٹری وزارت خارجہ، امیر الاحساء کو بھی یہی جواب دیا گیا۔ میں موت سے نہیں ڈرتا جب ان کا مرض بڑھ گیا۔ تو ڈاکٹروں نے ا ن کے ملنے والوں پر پابندی لگا دی۔ تاکہ وہ آرام کر سکیں۔ اس کی اجازت جب شاہ عبدالعریز سے طلب کی گئی تو
Flag Counter