Maktaba Wahhabi

40 - 467
کے مصر بھیج دیا گیا۔ اس طرح آل سعود میں سے صرف وہ لوگ بچ گئے جو کسی طرح کسی اور علاقہ میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان میں ترکی بن عبداللہ بن محمد سعود اور ان کا بھائی زید اور شیخ علی بن حسن بن الشیخ محمد بھی شامل تھے جو قطر اور عمان کی طرف نکل گئے تھے اور وہاں امام ترکی کے زمانے تک رہے۔ ابراہیم پاشا درعیہ سے واپس قصیم چلا گیا۔ اس کے بعد مدینہ منورہ اوروہاں سے مصر چلا گیا۔ آل سعود کی شکست اور ابراہیم کے مصر واپس جانے کے بعد وہ لوٹ مار ہوئی جس کی مثال نہیں۔ اس کے بارے میں ابن بشر لکھتے ہیں۔ ’’شکست کے بعد بہت بڑی تعداد میں لوگ قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ بازاروں میں ہوا۔ بعد ازاں ایک مالدار شخص محمد بن مشاری بن معمر درعیہ سے نکلا اور عینیہ جا کر ٹھہر گیا۔ جو آل معمر کا صدر مقام تھا۔ جب ابراہیم پاشا نجد سے چلا گیا۔ تو محمد بن مشاری درعیہ واپس آگیا۔ اور دوبارہ عمارتوں کی تعمیر کرنے لگ گیا۔ دراصل وہ اس امارۃ کی سربراہی کی لالچ میں تھا۔ اس نے دوسرے علاقوں سے خط و کتابت بھی کی تاکہ درعیہ کی رونق لوٹ آئے۔ دریں اثناء شہزادہ مشاری بن سعود الکبیر بھی واپس آگئے جو امام عبداللہ بن سعود کے بھائی تھے۔ وہ خود اکیلا نہ تھے۔ بلکہ ان کے ہمراہ مختلف علاقوں کے سرکردہ افراد بھی تھے۔ ابن معمر نے ان کی بیعت کی۔ یہ 1820ء میں ہوا۔ مشاری بن سعود آل سعود کا وہ پہلا شخص تھا۔ جو شکست کےبعد دوبارہ درعیہ پر حکمران ہوا۔ لیکن وہ زیادہ عرصہ تک حکمرانی نہ کر سکے اس لیے کہ محمد بن مشاری بن معمر نے درعیہ سے نکلنے کے بعد فوج تیار کی اور دوبارہ درعیہ میں
Flag Counter