Maktaba Wahhabi

215 - 467
والد کا احترام شاہ عبدالعزیز اپنے والد سے انتہائی محبت کرتے تھے اور نہایت فرمانبردار تھے۔ وہ جب بھی والد سے مخاطب ہوتے تو اپنے آپ کو مملوک تصور کرتے۔ ان کے سامنے خاموش بیٹھ جاتے۔ وہ ہمیشہ اسی تاک میں رہتے کہ کب والد محترم کسی کام کا حکم کرتے ہیں۔ خیر الدین الزر کلی بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے بتایا کہ ایک دفعہ ہم مکہ مکرمہ سے واپس آرہے تھے اور شاہ عبدالعزیز کے ہمراہ تھے اس وقت ان کے والد امام عبدالرحمن زندہ تھے۔ جب ہم مرآۃ نامی جگہ تک پہنچے تو انہوں نے اپنا ایک آدمی ریاض بھیجا اور شہر میں داخل ہونے کےلئے اجازت طلب کی۔ شاہ نے اپنی آمد کا وقت بھی بتا دیا۔ دوسرے دن جب شاہ عبدالعزیز ریاض شہر کے قریب پہنچے تو مقرر کردہ وقت میں 45 منٹ باقی تھے۔ وہ شہر میں داخل نہ ہوئے اور دوبارہ اجازت کے لیے ایک آدمی کو بھیجا۔ اجازت ملنے پر سیدھے والد کے گھر گئے اور دس منٹ تک گھر کے صحن میں بیٹھے رہے۔ پھر ایک ملازم نے آکر اطلاع دی کہ والد نے اجازت دے دی ہے اندر آجائیں۔ جب والد کے پاس پہنچے تو ان کے ماتھے کو چوما۔ وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شاہ عبدالعزیز خود زمین پربیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھنے کا انداز ایسا تھا کہ ان کے دونوں ہاتھ والد کے زانوں پر تھے۔ قصہ بیان کرنے والا کہتا ہے۔ کہ اس وقت یوں نظر آرہا تھا جیسے وہ بادشاہ نہیں۔ بلکہ انتہائی مودب مخلص فرمان بردار،بیٹا ہیں۔‘‘ امور سلطنت میں اہم امور کے بارے میں وہ ہمیشہ والد سے مشورہ کرتے
Flag Counter