مدینہ منورہ
شریف مکہ حسین بن علی اور اس کی اولاد کے ساتھ کشمکش کے دوران شاہ عبدالعزیز کے دل میں ایک خواہش تھی کہ جس طرح بھی ہو ان دونوں مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
جب مکہ مکرمہ میں سعودی فوجیں پرامن انداز میں داخل ہوئیں تو مدینہ منورہ سے پیغامات آنے شروع ہوئے۔ ’’ وہ اپنے شہر کے لیے اسی قسم کا امن چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ پیغام دیا کہ مدینہ منورہ کے لیے بہت کم افراد روانہ کئے جائیں۔
شاہ عبدالعزیز نے فیصل الدویش کی قیادت میں وفد بھیجا۔ ان کی سختی مشہور تھی۔ شریف مکہ کے حامی فوجیں پر امن انداز میں ہتھیا ر ڈالنے کے لیے تیار نہ تھیں۔ لہذا شاہ نےاحکامات جاری کئے کہ مدینہ منورہ پر حملہ نہ کیا جائے اور دور دور سے اس کا محاصرہ کیا جائے۔ وہاں رہنے والوں کو کہا جائے کہ وہ باہر نکل آئیں۔ پھر شاہ عبدالعزیز نے کچھ افراد شریفی فوج کو کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل پر پابندی لگانے کے لیے بھیجے۔
مصطفیٰ عبدالعال نے شاہ عبدالعزیز کو پیغام بھیجا کہ وہ بعض شرائط پر مدینہ منورۃ دینے کےلیے تیار ہے شاہ نے ان شرائط سے اتفاق کیا جن میں سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ شاہ عبدالعزیز ابنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن عبدالعزیز کو بھیج دیں تاکہ مدینہ منورہ ان کے سپرد کر دیا جائے لیکن جب وہ پہنچے تو انہوں نے وعدہ ایفاء نہ کیا لہذا محاصرہ کی مدت میں اضافہ کرنا پڑا اور 19 جمادی الاول 1344ھ(1925ء)کو
|