Maktaba Wahhabi

157 - 467
ہوا۔ حاجیوں کے قافلے محفوظ ہو گئے۔ نہریں کھدیں۔ پانی کی ریل پیل ہوئی اور جدید وسائل و ترقیات کےذریعہ مشکلات پر قابو پا لیا گیا۔زندگی کو خوشگوار بنایا گیا۔ غذائی اشیاء کی ایسی افراط ہوئی جس کا چند سال پہلے تصور بھی ممکن نہ تھا۔ اس کے ساتھ سعودی گھرانہ توحید کی دعوت کا حامل،شرک سے پنجہ آزما رہا جبکہ دینی، اخلاقی، اور معاشرتی اصلاح کا علم بردار بھی تھا۔ اس نے دین کے شعار کو بلند کیا، اس کے لئے قربانی بھی دی، اس کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگا دی۔ مولانا الندوی مزید لکھتے ہیں۔ ’’انہوں نے پر امن حاجیوں پر یلغار کرنے والے سنگ دل اور ناخدا ترس بدوؤں کا خاتمہ کر دیا، ظلم کا ہاتھ روک دیا، حدود شرعیہ کو نافذ کیا اور لوگوں کے سامنے سادگی اور مساوات کی ایک مثال قائم کی، اور ایسے بڑے بڑے کام انجام دئیے، جن سے ان کی غیر معمولی قابلیت اور خدا داد صلاحیت کا اظہار ہوا، ہر انصاف پسند نے ان کارناموں کو تحسین کی نظر سے دیکھا اور مشرق و مغرب کے بڑے مفکرین اور اہل قلم نے ان کا اعتراف کیا، یہ امید کی وہ کرن تھی،جس سے عالم اسلام کے مسلمانوں کے دل عام طور پر اور مسلمانان ہند کے دل خصوصا کھل اٹھے، جن کے لئے حجاز کی فکر سب سے بڑی فکر اور سب سے اہم مسئلہ تھا، چنانچہ انہوں نے اس پر دل سے اللہ کا شکر ادا کیا، اور حجاز کے اس انقلاب کا جوش و مسرت کے ساتھ خیر مقدم کیا۔ اس جوش و مسرت میں خاص طور پر وہ لوگ پیش پیش تھے، جو توحید خالص کے عقیدہ کے حائل، شرک و بدعت کے مخالف اور دین کو جہالت و خرافات اور
Flag Counter