Maktaba Wahhabi

153 - 467
جو نہ سنی گئی اور شکایت کرنے والوں کو خاموش ہونا پڑا۔‘‘ شریف حسین بن علی کی حکومت کے اہل کاروں کی زد سے علماء بھی محفوظ نہیں تھے۔ حالانکہ وہ شرک کےخلاف اور توحید کا درس دیتے تھے۔ بدعات اور خرافات کے خلاف آواز بلند کرتے تھے ان کی تبلیغی کاموں پر پابندی لگا دی گئی۔ ان میں ایک شیخ ابو بکر خوقیر بھی تھے جن کو ہتھکڑی پہنا کر جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ جنہوں نے جیل میں ان کی حالت دیکھی ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت بری حالت میں تھے۔ لیکن جب شاہ عبدالعزیز کی فوجیں خالد بن لوئی کی قیادت میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئیں تو انہوں نے جیل سے بہت سے بے گناہ افراد کو رہائی دلائی جن میں یہ شیخ خوقیر بھی تھے۔ بعد میں ان کو حنبلی مکتب فکر کا مفتی مقرر کیا گیا۔ وہ حرم شریف میں مدرس کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ حجاز میں شاہ عبدالعزیز کی آمد سے سیاسی طور پر بہت اچھے اثرات پڑے۔کیونکہ شاہ عبدالعزیز نے کبھی بھی اپنے منصوبے کا زبردستی نفاد نہیں کیا۔ وہ افراد کی نفسیات کو سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں شریف ہذاع کو امیر حجاز مقرر کیا گیا۔ خالد بن لوئی اخوان کا کمانڈر تھا۔ حافظ دھبہ دیوانی امور کا سربراہ تھا۔ ایک کونس کا قیام عمل میں لایاگیا جس میں 14 افراد تھے۔ اس کو نسل میں حجاز کے چیدہ چیدہ افراد شامل تھے۔ اس کی صدارت کے لیے عبدالقادر الشیبی جو خانہ کعبہ کا کلید بردار تھا، کا تعین عمل میں لایا گیا۔ اب حجاز والوں کو اندازہ ہوا کہ وہ آزادی کا سانس لے سکتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز نے ان کو مایوس نہیں کیا۔ بلکہ عمل طو ر پرو ہ کر دکھایا جو انہوں نے کہا۔ یہاں سب سے پہلے جس کام کی ضرورت تھی وہ امن و
Flag Counter