Maktaba Wahhabi

68 - 120
’’زندگی میں اور موت کے بعد بھی اولیاء اللہ کا تصرف ایک سا رہتا ہے،بلکہ موت کے بعد ان کی توجہ اور تصرف بیشتر اور بہتر ہوجاتا ہے کیوں کہ زندگی میں تو جسمانی حجاب اور ستر احوال بعض چیزوں میں مانع ہوتا ہے لیکن موت کے بعد سب حجاب اٹھ جاتے ہیں،گویا جب شمشیر نیام سے باہر آتی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ اس شمشیر کی نسبت زیادہ کارگر ہوتی ہے جو نیام میں ہے۔‘‘ [1] اس سلسلے کی دو حکایتیں ملاحظہ ہوں: حکایات اولیاء میں حکایت نمبر ۱۳۴ کے تحت یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ: ’’خاں صاحب نے فرمایا کہ اسی مجلس میں نواب مصطفی خاں نے اپنا قصہ بیان کیا کہ ہم چند احباب جن میں مرزا غالب بھی تھے اپنے بالا خانے پر بیٹھے ہوئے تھے اور بلا مزامیر کے گانا ہورہا تھا،اتفاق سے مومن خاں کہیں سے مولوی محمد عمر(مجذوب)کو پکڑ لائے،وہ یہ کہتے جاتے تھے کہ مجھے چھوڑ دو،مجھے چھوڑ دو،مگر مومن خاں نہیں مانتے تھے،آخر لا کر اس مجلس میں ا ن کو بٹھا دیا،گانا برابر ہوتا رہا،تھوڑی دیر میں مولوی محمد عمر صاحب نے ایک بہت ہی معمولی سی حرکت کی اس کے اثر سے سارا مکان ہل گیا،اس پر سب کو شبہہ ہوگیا،یہ بھی خیال ہوا کہ شاید ان کی جنبش کا اثر ہو اور یہ بھی کہ شاید زلزلہ ہو،اس پر سب کی توجہ مولوی محمد عمر صاحب کی طرف ہوگئی،تھوڑی دیر میں انہوں نے دوبارہ حرکت کی جو پہلی حرکت سے زیادہ تھی،اس سے مکان پھر ہل گیا اور پہلے سے زور سے ہلا،اب تو یقین ہوگیا کہ یہ انہیں کی حرکت کا اثر ہے۔تھوڑی دیر میں ذرا اور زور سے حرکت کی تو اس سے مکان کو اور زور سے حرکت ہوئی اور کڑیاں بھی بول گئیں اور طاقوں وغیرہ میں جو شیشہ آلات رکھے تھے وہ کھن کھن کھن کھن کرنے لگے۔اس پر کسی نے کہا:مولوی محمد عمر یہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں پہلے ہی کہتا تھا کہ مجھے مت بٹھاؤ،اور یہ کہہ کر اٹھ کر چل دیے‘‘[2] اور’’ نقش حیات‘‘ میں یہ واقعہ مذکور ہے: ’’ایام تحریک خلافت ایک بزرگ نقشبندی دیو بند آئے،مولانا نانوتوی کا وصال
Flag Counter