مرید میں اثر کررہی ہے خیال کرے ان شاء اللہ حسب استعداد نور برکتیں حاصل ہوں گی اور لطیفہ قلب کے جاری کرنے کے بعد ہر لطیفہ پر تدریجاً توجہ کرے اور اسی طرح انوار مراقبات ولطائف کے القاء میں توجہ کرے اور اگر مرید موجود نہ ہو تو اس کی صورت کا تصور کرکے غائبانہ توجہ کرے اور اسے فائدہ پہنچائے۔‘‘ [1] اس کے بعد مرض کے سلب کرنے کا طریقہ،زندہ اور مردہ اہل اللہ کی نسبت دریافت کرنے کا طریقہ،خطرہ معلوم کرنے کا طریقہ،آئندہ واقعات کی واقفیت کا طریقہ اور بلا کے دفع کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے،[2] اس کے پہلے مراقبات قادریہ کو بیان کرتے ہوئے مختلف طریقوں کا ذکر کیا ہے،مثلاً ارواح اور ملائکہ کے کشف کا طریقہ،آئندہ کے حالات سے باخبر کردینے والا ذکر،بیمارکی شفاء کے لیے ذکر،مشکل چیزوں کے حاصل کرنے اور آئندہ کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کا ذکر،کشف قبور کے واسطے ذکر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے کشف کا ذکر۔۔۔۔[3] اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء ورسل کے ہاتھوں پر معجزات جاری کیے،اور اپنے محبوب وبرگزیدہ بندوں کو ’’کرامات‘‘ سے بھی نوازتا رہتا ہے،معجزات اور کرامات سے کس کو انکا رہوسکتا ہے،البتہ جو چیز یہاں محل نظر ہے وہ یہ کہ کسی کی پوری زندگی ’’کرامات‘‘ ہی بن کر رہ جائے،ایسی زندگیاں جو سراپا معجزہ وکرامت ہوں بھلا عوام الناس کے لیے نمونہ کہاں بن سکتی ہیں،پیروی تو عاد ت کی ہوسکتی ہے خرق عادت کی نہیں ہوسکتی۔ صحابہ کرام سے بڑھ کر خدا رسیدہ اور کون ہوسکتا ہے،بڑے سے بڑا صوفی،چھوٹے سے چھوٹے صحابہ کے مقابلہ میں فر وتر ہی نظر آتا ہے،مگر صحابہ کرام کی اتنی بڑی جماعت میں گنتی کے چند صحابہ کی زندگیوں میں کرامتوں اور خرق عادت کے چند واقعات ملتے ہیں،اکثر وبیشتر صحابہ عظام کی زندگیوں کے ورق کرامات کے باب میں بالکل سادہ اور |