Maktaba Wahhabi

48 - 120
کے تئیں کامل خود سپردگی میں بڑا اہم رول رہا ہے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ استسلا م اور عقیدت مندی جب معینہ حدود سے متجاوز ہوجاتی ہے تو پھر وہ کسی حد پر رکنا گوارا نہیں کرتی حتی کہ خالق اور مخلوق کے امتیاز کو بھی فراموش کر بیٹھتی ہے اور ایسے تصورات اور عقائد کو جنم دیتی ہے جن کی تصدیق و تائید شرعی مسلمات کی تکذیب و جحود کو مستلزم ہوتی ہے،بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ تصوف میں اس قسم کی عقیدت مندی اور مبالغہ آمیزی کا ہمیشہ ہی دور دورہ رہا ہے۔چنانچہ صوفیاء واولیاء کی طرف علم غیب کو منسوب کرنا،انھیں دل کے خطرات سے مطلع ماننا،حمل میں بچہ ہے یا بچی،اس کے بارے میں انھیں باخبر تصور کرنا،منتسبین تصوف کے یہاں عام بات ہے۔اور اسی پر بس نہیں بلکہ دلوں میں تصرف کرنا،کائنات کا نظم و نسق چلانا،رزق،اولاد،صحت اور روزگار وغیرہ دینے کا اختیار رکھنا،مریضوں کو شفا دینا،ہر فریاد رس کی فریاد کو پہنچنا،دنیا کے پردے پر جہاں سے بھی کوئی پکارے اس کی پکار سننا،کونین کے ایک ایک ذرے پر نظر رکھنا اور مرنے کے بعد بھی ہر نزدیک و دور سے پکارنے والے کی پکار کوسننا،اور اس کی پریشانی دفع کرنا،اور اس قسم کی لا تعداد صفات سے ان کو نہ صرف یہ کہ متصف مانا جاتا ہے بلکہ اس تعلق سے واقعات و حکایات کاایک لامتناہی تذکرہ بھی زیب قرطاس کیا جاتا رہا ہے۔اس کی مثالوں کے لیے اولیاء و شیوخ کے تذکرے و سوانح کی کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے،ہم یہاں بطور نمونہ چند مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کریں گے: مولوی محمد یٰسین صاحب اپنے شیخ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’شیخ ہر چہ گوید دیدہ گوید‘‘[1] یعنی شیخ جو بات بھی کہتے ہیں دیکھ کر کہتے ہیں: مولوی ولی محمد اپنے استاد کے بارے میں کہتے ہیں: ’’حضرت کے سامنے جاتے مجھے بہت ڈر معلوم ہوتا ہے کیوں کہ قلب کے وساوس اختیار میں نہیں اور حضرت ان پر مطلع ہوجاتے ہیں‘‘[2]
Flag Counter