Maktaba Wahhabi

46 - 120
اس لیے وہ غیر اسلامی عقائد بعینہ اسلاف سے اخلاف کو منقول ہوتے رہے اور کسی صوفی یا سجادہ نشیں یا شیخ نے ان عقائد و افکار و تعلیمات پر تحقیقی نظر نہیں ڈالی،اگر کوئی بات صریحاً خلاف عقل نظر بھی آئی تو اس کی تاویل کرلی،کیونکہ اسلاف کی غلطی کو غلطی کہنا تمام صوفیوں میں سوء ادب سمجھا جاتا تھااور اگر کوئی شخص تغلیط کی جرأت کرتا تھا تو اسے یہ مصرع سنا کر خاموش کردیا جاتاتھا کہ ؎ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام شیوخ سلاسل’’معصوم عن الخطا‘‘ہوگئے اور دیگر فنون کی طرح تصوف میں تقلید کورکا بازار گرم ہوگیا……‘‘ [1] یہاں اس امر کی طرف اشارہ کرنا بے جانہ ہوگا کہ اولیاء کی شان میں عقیدت کے اس غلو کا مرجع و ماخذ بھی رفض و تشیع ہی ہے،شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں جو عقائد رکھتے ہیں ان میں ان اماموں کی عصمت کا عقیدہ بھی سرفہرست ہے،شیعوں کے یہاں بھی ائمہ کے اقوال نص شرعی کے مثل واجب التسلیم ہوتے ہیں اور ان کے کسی بھی قول و فعل میں کسی قسم کے چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مشہور رافضی عالم ابو جعفر یعقوب کلینی نے اپنی کتاب ’’الجامع الکافی‘‘ میں ائمہ کی عصمت سے متعلق ایک مستقل باب قائم کیا ہے،اس باب میں انہوں نے امام کی ’’عصمت‘‘ اور صفات کا جس انداز سے ذکر کیا ہے اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ رافضیوں کے ائمہ کبائر و صغائر سے معصوم ہیں،وہ صاف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ:’’امام تمام گناہوں سے پاک اور ہر قسم کے عیوب سے مبرا ہوتا ہے‘‘ کلینی مزید لکھتے ہیں کہ امام تو معصوم ہوتا ہے اس لیے اس سے کسی قسم کی غلطی یا لغزش ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے،اور یہ سب لطف الٰہی کا طفیل ہے کیونکہ خالق کون نے اسے معصوم پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کے بندوں کے لیے حجت بن سکے۔[2]
Flag Counter