Maktaba Wahhabi

25 - 120
’’شیخ کے ساتھ ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ مرید کو جب ان سے کسی بھی دینی یا دنیاوی سلسلہ میں کوئی کلام کرنا ہو تو جلد بازی سے کام نہ لے اور نہ شیخ سے ہم کلامی میں پہل کرے تاآنکہ اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ شیخ میری بات سننے کے لیے خالی اور تیار ہیں،اور دعا جو اللہ سے ایک طرح کی گفتگو ہے جس طرح اس کے کچھ اوقات،آداب اور شروط ہوتے ہیں ایسے ہی شیخ سے بات کرنے کے بھی آداب و شرائط ہیں کیونکہ یہ بھی اللہ ہی کے ساتھ معاملہ کرنا ہے،شیخ سے بات کرنے سے قبل مرید حسن ادب کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے گا‘‘[1] سہروردی صاحب ایک مقام پر مزید فرماتے ہیں: ’’اسی طرح شیخ کے ساتھ مرید کے ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ بالکل بے بس ہو،اپنے نفس اور مال میں شیخ کی اجازت اور حکم کے بغیر کوئی تصرف نہ کرے۔‘‘[2] واضح رہے کہ لفظ ’’مرید‘‘ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ’’أراد یرید إرادۃ‘‘ سے سلب ماخذ کا خاصہ رکھنے والا فعل ہے،چنانچہ’’ مرید‘‘ مسلوب الارادۃ کے معنی میں ہے،یعنی ایسا شخص جس کا اپنا کوئی اختیار نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو مکمل طور سے شیخ کے سپرد کردے اور اسی کے اشارے پر اس کی حرکت و سکون موقوف ہو۔[3] مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں پانی پت کا ایک طالب علم بیعت کے لیے آیا،آپ نے اس کو ہدایت کی کہ فراغت کے بعد آنا،مگر وہ طالب علم مصر رہا،اس کے بار بار اصرار کرنے پر آپ نے اس سے کہا: ’’تم طالب علم ہو،اچھا بتاؤ مرید کے کیا معنی؟ ‘‘طالب علم نے جواب دیا کہ:’’ارادہ کرنے والا کسی کام کا‘‘ آپ نے فرمایا:جبھی تو کہتا ہوں تمہیں ا بھی مرید کے معنی بھی نہیں معلوم اور مرید ہونے آگئے،یہ باب افعال ہے،ہمزہ سلب کا ہے،مرید کے معنی
Flag Counter