Maktaba Wahhabi

14 - 120
استغفار میں باطنی مضرت سے تو محفوظ ہو گیا اب خواہ وہ کمال سابق عائد ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن چونکہ شیخ کے قلوب کو اس سے صدمہ پہنچا تھا اور اس کے قلب میں تصرف کی قوت بھی موجود تھی اس کے اثر سے شاہزادہ مرگیا کہ صاحب تصرف اگر اس کا قصد بھی نہ کرے مگر اس کو صدمہ ہونا اس دنیوی ضرر کا سبب ہوجاتا ہے کیوں کہ ناگواری میں ایک گونہ توجہ اس شخص کے اضرار کی طرف طبعاً ہوجاتی ہے اور اس سے یہ اثر ہوسکتا ہے۔‘‘ [1] اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی استاد یا شیخ کی شاگردی اور صحبت نفع بخش ہوتی ہے،صلحاء کی صحبت اختیار کرنے اور اشرار سے دور رہنے کی شریعت میں بھی تاکید کی گئی ہے،لیکن یہ تصور کہ ہدایت ورہنمائی کا واحد ذریعہ شیخ یا پیر ہی ہے،اس سے الگ ہٹنا شیطان کی شاگردی اختیار کرنا ہے یہ چیز بہر حال محل نظر ہے،ہدایت وضلالت کسی پیر ومرشد کی جاگیر نہیں بلکہ یہ تو عطیہ خداوندی ہے،اس کے حصول کی راہ کو اس درجہ تنگ کردینا بڑی ناانصافی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں علماء،فقہاء،محدثین اور ائمہ دین اپنے وقت میں زہد وتقویٰ کے اعلیٰ مرتبے پر فائز رہے حالانکہ انھوں نے نہ کسی شیخ طریقت کی مروجہ اصطلاحی مریدی اختیار کی تھی اور نہ کسی سے بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ خود صوفیہ ہی کا ایک طبقہ اس من گھڑت کلیہ سے غیر مطمئن نظر آتا ہے اور کتاب وسنت اور سیرت صحابہ کو رشد وہدایت کا منبع بتاتا ہے۔ قشیری صاحب اپنے رسالہ میں شیخ ابوبکر طمستانی(متوفی ۳۴۱ھ؁)کا یہ ہدایت نامہ نقل کرتے ہیں: ’’راستہ واضح ہے اور کتاب وسنت ہمارے درمیان قائم ہیں،اور صحابہ کی فضیلت معلوم ہے،ہجرت اور صحبت رسول کی وجہ سے،تو اب ہم میں جو شخص کتاب وسنت کے ساتھ صحبت اختیار کرے،اپنے نفس اور مخلوق کو خوش کرنے سے الگ ہوجائے اور خلوص دل سے اللہ کی طرف ہجرت کرے تو وہی سچا ہے اور صحیح راستہ پر پہنچا ہوا ہے۔‘‘ [2]
Flag Counter